جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

امام كے جانے تك نماز تروايح ميں امام كى متابعت كرنا

سوال

نماز تراويح ميں جب گيارہ ركعت ادا كرنا راجح ہے، تو اگر ميں كسى ايسى مسجد ميں نماز تراويح ادا كروں جہاں اكيس ركعت ادا كى جاتى ہوں تو كيا ميرے ليے دس ركعت ادا كرنے كے بعد وہاں سے جانا جائز ہے، يا كہ افضل اور بہتر يہ ہے كہ ميں ان كے ساتھ اكيس ركعت ادا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

افضل تو يہ ہے كہ امام كے ساتھ نماز مكمل كى جائے حتى كہ امام مكمل كر كے جائے، چاہے وہ گيارہ ركعت سے بھى زيادہ ادا كرتا ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان كے عموم سے زيادہ ركعات كى ادائيگى جائز ہے:

فرمان نبوى ہے:

" جس نے امام كے جانے تك اس كے ساتھ قيام كيا اللہ تعالى اس كے ليے سارى رات كے قيام كا اجروثواب لكھتا ہے "

سنن نسائى وغيرہ، ديكھيں: سنن نسائى باب قيام شھر رمضان

اور ايك حديث ميں فرمان نبوى ہے:

" رات كى نماز دو دو ركعت ہے، لہذا جب تمہيں صبح طلوع ہونے كا خدشہ ہو تو ايك ركعت پڑھ اسے وتر بنا لو"

رواہ السبعۃ، يہ الفاظ نسائى كے ہيں.

ليكن اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت پر عمل كرنا اولى اور افضل اور بہتر ہے، اور اجروثواب بھى اسى ميں زيادہ ہے كہ نماز كو لمبا كيا جائے اور اسے اچھے طريقہ سے ادا كيا جائے، ليكن جب معاملہ يہ ہو كہ امام زيادہ ركعات ادا كرے اور اس كى موافقت كا مسئلہ ہو تو مقتدى كے ليے افضل يہ ہے كہ وہ مندرجہ بالا احاديث كى بنا پر امام كے ساتھ ہى ادا كرے، ليكن اسے امام كو نصيحت كرنى چاہيے كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت پر عمل كرتے ہوئے گيارہ ركعات ہى ادا كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد