منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

بيويوں كوعطيہ دينے ميں عدل وانصاف كرنا واجب ہے

34701

تاریخ اشاعت : 20-03-2005

مشاہدات : 6300

سوال

ميري دو بيوياں ہيں ميں ايك كےليے سونے كاہديہ خريدنا چاہتا ہوں كيا ميرے ليےايسا كرنا جائز ہے يا كہ يہ بيويوں كےمابين عدم عدل ميں شامل ہوتا ہے ، آپ كےعلم ميں ہونا چاہيے كہ ميں دوسري بيوي كےحق ميں كمي نہيں كرتا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس كي دو يا دو سےزيادہ بيوياں ہوں اسے ان كےمابين عدل وانصاف كرنا چاہيے اس كےليے حلال نہيں كہ كسي ايك بيوي كو نان ونفقہ اور رہائش اور شب بسري ميں خاص كرے ، جوكوئي بيويوں كےمابين عدل وانصاف نہيں كرتا اس كےليے بہت سخت وعيد آئي ہے :

ابوہريرہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا :

جس كي دو بيوياں ہوں اور وہ ان ميں سےايك كي جانب مائل ہو وہ روز قيامت آئےگا تو اس كي ايك جانب گري ہوئي ہوگي .

اور ايك روايت ميں ہے كہ : وہ اپني گري ہوئي يامائل جانب كو گھسيٹ رہا ہوگا . مسند احمد ( 2 / 295 )( 347 - 471 ) اور امام نسائي اور ابن ماجہ رحمھمااللہ نےبھي سنن ميں روايت كي ہے .

اور ايك روايت ميں ہے كہ ابوہريرہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

( جس كي دو بيوياں ہوں اور وہ ان ميں سےايك كي جانب مائل ہو تو روزقيامت آئےگا اور اس كي ايك جانب مائل ہوگي ) سنن ابوداود ( 2 / 601 ) اور امام ترمذي نے الجامع ميں روايت كيا ہے .

اس ميں يہ دليل پائي جاتي ہے كہ سوكنوں كےمابين عدل وانصاف كرنا ضروري ہے ، اور ان ميں سےايك بيوي كا جانب ميلان ركھنا جس سے دوسري كي حق تلفي ہوتي ہو حرام ہے ليكن دلوں كا ميلان اس ميں شامل نہيں كيونكہ وہ دل پر كنٹرول نہيں ركھتا اوراسي ليے رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم اپني بيويوں كےساتھ تقسيم ميں برابري كيا كرتے اور فرماتے:

اے اللہ جس كا ميں مالك ہوں اس ميں يہ ميري تقيسم ہے ، لھذا جس كا مالك تو ہےميں نہيں اس ميں ميرا مؤاخذہ نہ كرنا . ( يعني دلي محبت كا )

تواس بنا پر خاوند كےليے جائز نہيں كہ وہ كسي ايك بيوي كوايسي چيز ميں خاص كرے جس كا وہ خود مالك ہے ، لھذا اگر اس نے ايك بيوي كو گھروغيرہ ہبہ كيا تو اس كےليے ضروري ہے كہ اس ميں وہ بيويوں كےمابين برابري كرے اور ہرايك كو اسي طرح كي چيزيا اس كي قيمت ادا كرے ، ليكن اگر دوسري بيوي اسے اس كي اجازت دے تو اس ميں كوئي حرج نہيں . اھ  .

ماخذ: ديكھيں : فتاوي اللجنۃ الدائمۃ ( 16 / 189 )