منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

غائبان نماز جنازہ ادا كرنے كا حكم

35853

تاریخ اشاعت : 14-03-2007

مشاہدات : 24121

سوال

غائبانہ نماز جنازہ ادا كرنے كا حكم كيا ہے ؟
اور اگر يہ مشروع ہے تو كيا ہر غائب ميت كا غائبانہ جنازہ ادا كرنا مشروع ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ہے كہ جس دن حبشہ كا بادشاہ نجاشى فوت ہوا نبى كريم صلى اللہ اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كو اس كى موت كى خبر دى اور جنازگاہ جا كر اپنے صحابہ كرام كے ساتھ صفيں بنا كر غائبانہ نماز جنازہ پڑھائى.

يہ حديث غائبانہ نماز جنازہ كى مشروعيت كى دليل ہے، ليكن بعض علماء مثلا احناف اور مالكيہ حضرات كا كہنا ہے كہ:

يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خصوصيات ميں شامل ہے اس ليے كسى اور كے ليے غائبانہ نماز جنازہ مشروع نہيں.

ليكن جمہور علماء كرام اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ خصوصيت دليل كے ساتھ ثابت ہوتى ہے، ليكن اس مسئلہ ميں خصوصيت كى كوئى دليل نہيں، اور اصل ميں امت مسلمہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرنے كى مامور ہے.

غائبانہ نماز جنازہ كے قائلين حضرات ميں يہ اختلاف ہے كہ: آيا ہر شخص كا غائبانہ نماز جنازہ ہو سكتا ہے يا نہيں ؟

اور سب علماء كرام نجاشى والى حديث سے ہى استدلال كرتے ہيں، شافعي اور حنبلى حضرات كہتے ہيں كہ: علاقے سے دور ہر شخص كا غائبانہ نماز جنازہ ادا كرنا مشروع ہے، چاہے جہاں وہ فوت ہوا ہے وہاں اس كا نماز جنازہ ادا بھى كيا گيا ہو.

اور دوسرا قول يہ ہے كہ:

غائبانہ نماز جنازہ اس صورت ميں جائز ہے جب اس كا مسلمانوں كو كوئى منفعت اور نفع حاصل ہو، مثلا كسى عالم دين يا مجاھد، يا غنى شخص جس كے مال وغيرہ سے لوگ نفع حاصل كرتے رہے ہوں.

يہ قول امام احمد رحمہ اللہ كا ايك قول ہے، اور شيخ سعدى رحمہ اللہ نے بھى اسے اختيار كيا ہے، اور مستقل فتوى كميٹى نے بھى يہى فتوى ديا ہے.

تيسرا قول:

غائبانہ نماز جنازہ اس شرط پر جائز ہے كہ جہاں وہ فوت ہوا ہے وہاں اس كى نماز جنازہ ادا نہ ہوئى ہو، اور اگر اس كى نماز جنازہ ادا كى گئى ہے تو پھر غائبانہ نماز جنازہ مشروع نہيں.

يہ قول امام احمد رحمہ اللہ كى دوسرى روايت ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہم اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے، اور متاخرين علماء ميں سے شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ بھى اسى كى طرف مائل ہيں.

اس مسئلہ كے متعلق ذيل ميں بعض علماء كرام كے اقوال پيش كيے جاتے ہيں:

مالكى فقہ كے عالم دين خرشى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ سلم كا نجاشى كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كرنا ان كى خصوصيات ميں شامل ہوتا ہے " انتہى.

ديكھيں: ( 2 / 142 ).

اور حنفى عالم دين الكاسائى كا بھى يہى قول ہے.

ديكھيں: بدائع الصنائع للكاسائى ( 1 / 312 ).

اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ہمارا مذہب تو يہ ہے كہ علاقے سے غائب شخص كا غائبانہ نماز جنازہ ادا كرنا جائز ہے، اور امام ابو حنيفہ اسے ممنوع قرار ديتے ہيں، ہمارى دليل نجاشى والى صحيح حديث ہے جس ميں كوئى طعن نہيں، اور نہ ہى ان كے پاس اس كا كوئى صحيح جواب ہے " انتہى بتصرف

ديكھيں: المجموع للنووى ( 5 / 211 ).

اور شافعى حضرات نے غائبانہ نماز جنازہ كے جواز كو ايك اچھى قيد سے مقيد كيا ہے كہ نماز جنازہ غائبانہ ادا كرنے والا شخص نماز كا اہل ہو جس دن ميت فوت ہوئى ہو تو وہ شخص نماز كا اہل تھا.

زكريا انصارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

علاقے سے غائب شخص كى غائبانہ نماز جنازہ اس شخص كے ليے جائز ہے جو اس كے مرنے كے دن فرضى نماز كا اہل تھا " انتہى بتصرف.

ديكھيں: اسنى المطالب ( 1 / 322 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ليكن بعض علماء كرام نے ايك اچھى قيد لگاتے ہوئے كہا ہے كہ: ايك شرط كے ساتھ وہ يہ كہ وہ مدفون شخص ايسے وقت فوت ہوا ہو جب وہ نماز ادا كرنے والا شخص نماز كا اہل تھا.

اس كى مثال يہ ہے كہ:

ايك شخص بيس برس قبل فوت ہوا اور ايك انسان تيس برس كى عمر ميں ہو كر اس كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كرتا ہے تو يہ صحيح ہے؛ كيونكہ جب وہ شخص فوت ہوا تو اس نمازى كى عمر دس برس تھى جو كہ نماز جنازہ ادا كرنے كے اہل ہوتى ہے.

دوسرى مثال:

ايك شخص تيس برس قبل فوت ہوا، اور ايك بيس سالہ شخص جا كر اس كى غائبانہ نماز ادا كرنا چاہے تو يہ صحيح نہيں؛ كيونكہ جب وہ شخص فوت ہوا تھا تو يہ نماز اس وقت معدوم تھا اور موجود ہى نہيں تھا تو يہ اس كى نماز جنازہ ادا كرنے كے اہل ميں سے نہيں.

تو اس طرح ہمارے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر پر نماز جنازہ ادا كرنى مشروع نہيں، اور ہمارے علم ميں يہ بات آئى ہے كہ ايك شخص نے يہ بات كى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر پر نماز جنازہ ادا كرنا مشروع ہے، يا صحابہ كرام كى قبروں پر نماز جنازہ ادا كرنا مشروع ہے، تو يہ صحيح نہيں، ليكن صحيح يہ ہے كہ اسے وہاں كھڑے ہو كر دعا كرنى چاہيے " انتہى ماخوذ از: الشرح الممتع.

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كسى دوسرے علاقے ميں غائبانہ نماز جنازہ نيت كے ساتھ ادا كرنا جائز ہے، وہ قبلہ رخ ہو كر اسى طرح نماز جنازہ ادا كرے گا جس طرح حاضر ميت پر نماز جنازہ ادا ہوتى ہے، چاہے ميت قبلہ والے رخ ميں ہو يا نہ ہو، اور چاہے دونوں علاقوں كے مابين قصر كى مسافت ہو يا نہ ہو، امام شافعى رحمہ اللہ كا قول يہ ہے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 2 / 195 ).

اور " الانصاف " ميں المرداوى رحمہ اللہ رقمطراز ہيں:

اور غائبانہ نماز جنازہ نيت كے ساتھ ادا كى جائيگى ( مطلقا مذہب يہى ہے ) يعنى اس كى نماز جنازہ ادا ہوئى ہو يا نہ، اور چاہے اس كا عام مسلمانوں كو نفع تھا يا نہيں ) اور جمہور اصحاب اسى پر ہيں، اور ان ميں سے اكثر نے قطعى يہى كہا ہے، اور ( امام احمد ) كا قول ہے كہ اس كى غائبانہ نماز جنازہ صحيح نہيں.

اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: اگر اس كى نماز جنازہ ادا نہ ہوئى ہو تو غائبانہ نماز جنازہ ادا كى جائيگى، وگرنہ نہيں، شيخ تقي الدين اور ابن عبد القوى نے يہى اختيار كيا ہے " انتہى

ديكھيں: الانصاف للمرداوى ( 2 / 355 ).

اور شيخ بسام رحمہ اللہ " نيل المآرب " ميں لكھتے ہيں:

غائبانہ نماز جنازہ ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، چنانچہ ابو حنيفہ رحمہ اللہ اور امام مالك اور ان كے پيروكار كہتے ہيں كہ غائبانہ نماز جنازہ مشروع نہيں، اور نجاشى كے قصہ كا جواب يہ ديتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نجاشى كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خصائص ميں شامل ہوتا ہے.

اور امام شافعى، اور امام احمد اور ان كے پيروكار كہتے ہيں كہ غائبانہ نماز جنازہ مشروع ہے، اور صحيحين يعنى بخارى اور مسلم كى حديث سے ثابت ہے، اور خصوصيت دليل كى محتاج ہے، اور يہ خصوصيت ميں شامل ہونے كى كوئى دليل نہيں ملتى.

اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ نے ميانى روى اختيار كرتے ہوئے كہا ہے كہ:

اگر اس كى نماز جنازہ ادا نہ كى گئى ہو تو غائبانہ نماز جنازہ ادا ہو گى جس طرح كہ نجاشى كى ادا كى گئى، اور اگر اس كى نماز جنازہ ادا ہوئى ہو تو مسلمانوں سے فرض كفايہ ساقط ہو گيا.

يہ قول امام احمد رحمہ اللہ سے صحيح روايت ہے، اسے ابن قيم رحمہ اللہ نے " الھدي " ميں صحيح قرار ديا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں كئى صحابہ كسى دوسرے علاقے ميں فوت ہوئے ليكن يہ ثابت نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كى ہو.

اور شيخ الاسلام نے امام احمد سے نقل كيا ہے كہ: جب كوئى نيك اور صالح شخص فوت ہو جائے تو اس كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كى جائيگى اور انہوں اس كى دليل نجاشى كے قصہ سے حاصل كى ہے.

ہمارے شيخ اور استاد عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ نے اس تفصيل كو راجح قرار ديا ہے، اور ہمارے ہاں نجد كے علاقے ميں عمل بھى اسى پر ہے وہ علم و فضل اور مسلمانوں پر سبقت والے شخص كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كرتے ہيں، اور اس كے علاوہ باقى كى نہيں، اور يہاں نماز جنازہ مستحب ہو گى "

ديكھيں: نيل المآرب ( 1 / 324 ).

خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" غائبانہ نماز جنازہ اس وقت ادا كى جائيگى جب كسى شخص كى موت ايسى جگہ ہو جہاں اس كى نماز جنازہ ادا كرنے والا كوئى نہ ہو، اور شافعيہ ميں سے الرويانى نے مستحسن قرار ديا ہے، اور ابو داود رحمہ اللہ نے سنن ابو داود ميں اس پر باب باندھتے ہوئے كہا ہے:

" كسى دوسرے علاقے ميں مشركوں كے ساتھ رہنے والے مسلمان شخص كى نماز جنازہ كے متعلق باب "

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس كا احتمال ہے " انتہى ماخوذ از: فتح البارى.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:

كيا ہمارے ليے كسى كا غائبانہ نماز جنازہ ادا كرنا جائز ہے، جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے پيارے نجاشى كے ساتھ كيا تھا يا كہ يہ ان كى خصوصيت ميں شامل ہوتا ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل كى بنا پر غائبانہ نماز جنازہ ادا كرنا جائز ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خصوصيات ميں شامل نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ صحابہ كرام نے بھى نماز جنازہ ادا كى تھى، اور اس ليے بھى كہ اصل ميں عدم خصوصيت ہے، ليكن يہ اس شخص كے ساتھ خاص كرنا چاہيے جس كو اسلام ميں كوئى عظمت اور مرتبہ حاصل ہو، نہ كہ ہر شخص كا حق ہے " انتہى.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے نجاشى كى غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائى، اور اس كا سبب يہ تھا كہ وہاں اس كى نماز جنازہ ادا كرنے كے ليے كوئى مسلمان شخص نہ تھا، اور اس وقت واقعہ يہ ہے كہ كئى مسلمان فوت ہوتے ہيں اور ان كى نماز جنازہ ہى ادا نہيں كى جاتى جيسا كہ يہ ہمارے دور ميں يقينى طور پر حاصل ہے، يعنى يہ يقين ہے كہ ان كى نماز جنازہ ادا نہيں ہوئى ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جب يہ يقين ہو جائے كہ كسى شخص كى نماز جنازہ ادا نہيں ہوئى تو اس كى نماز جنازہ ادا كى جائيگى، كيونكہ نماز جنازہ فرض كفايہ ہے، ليكن ہو سكتا ہے كہ اس كے اہل و عيال نے اس كى نماز جنازہ ادا كى ہو، كيونكہ نماز جنازہ ايك شخص بھى ادا كر سكتا ہے، بہر حال جب يہ يقين ہو جائے كہ كسى شخص كى نماز جنازہ ادا نہيں كى گئى تو آپ كے ليے اس كى نماز جنازہ ادا كرنا ضرورى ہے، كيونكہ يہ فرض كفايہ ہے اور اس كى ادائيگى ضرورى ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 17 / 149 ).

مندرجہ بالا سطور سے يہ واضح ہوا ہے كہ غائبانہ نماز جنازہ ادا كرنا مشروع ہے، اس كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے صحابہ كرام كا نجاشى كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كرنا ہے، اور اس كى كوئى دليل نہيں ملتى كہ يہ كام رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خصوصيات ميں شامل ہوتا ہے.

ليكن اس مسئلہ ميں صحيح ترين اور عدل والے دو قول ہيں:

پہلا قول:

اس شخص كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كى جائے جس كى نماز جنازہ ادا نہ ہوئى ہو.

دوسرا قول:

اس شخص كى غائبانہ نماز جنازہ ادا كى جائے جس شخص كا مسلمانوں كو كوئى فائدہ اور منفعت تھى، مثلا عالم دين جس كے علم سے لوگ فائدہ حاصل كرتے رہے، اور كوئى تاجر جس كے مال سے مسلمانوں كو فائدہ ہوا، يا پھر اللہ كى راہ ميں جھاد كرنے والا مجاھد جس كے جہاد سے لوگوں اور اسلام كو فائدہ ہوا، اور اس طرح كے دوسرے افراد.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب