جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

رمضان المبارك ميں لڑكى كا ہاتھ پكڑنے كا حكم كيا ہے

سوال

رمضان المبارك كے دن ميں لڑكى كا ہاتھ پكڑنے والے شخص كا حكم كيا ہے، يا اگر لڑكى اسے گلے لگا لے يا اس كا بوسہ لے تو كيا حكم ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مرد كے ليے غير محرم اور اجنبى عورت كا ہاتھ پكڑنا حرام ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تمہارے ليے كسى نامحرم عورت كو چھونے سے بہتر ہے كہ اس كے سر ميں لوہے كى سوئى مارى جائے"

اسے طبرانى رحمہ اللہ تعالى معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 5045 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

جب يہ صرف چھونے كے متعلق ہے تو پھر لڑكى كو گلے لگانا اور بوسہ لينا اس سے بھى شديد ہے، اور اگر عورت ايسا كام كرنے كى كوشش كرے تو مرد كو اسے منع كرنا چاہيے، اور اسے حرام كام نہيں كرنے دينا چاہيے.

اور يہ حكم عام ہے جو روزہ دار اور غير روزے دار كو شامل ہے، ليكن روزے دار كے حق ميں تو ايسے حرام اور انگيخت انگيزى كے كاموں سے اجتناب كى زيادہ تاكيد ہے جو كہ روزے كے اہداف مقاصد اورحكمت كے منافى ہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى نے روزے كى حكمت بيان كرتے ہوئے فرمايا:

اے ايمان والو! تم پر روزے فرض كيے گئے ہيں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض كيے گئے تھے، تا كہ تم تقوى اختيار كرو البقرۃ ( 183 ).

اور حديث قدسى ميں فرمان بارى تعالى ہے:

" روزہ ميرے ليے ہے، اور ميں ہى اس كا بدلہ اور جزا دونگا، ميرے ليے وہ اپنى شہوت اور كھانا، پينا چھوڑتا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7492 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1151 )

لہذا جو بھى ايسا فعل كر چكا ہو اسے اللہ سبحانہ وتعالى كے سامنے توبہ كرنى چاہيے اور عزم كرے كہ آئندہ ايسا كبھى بھى نہيں كرے گا.

اور اس كے روزے كے متعلق تفصيل ہے:

اگر تو ان اعمال كى بنا پر اس كى منى خارج ہو گئى ہو تو اس كا روزہ فاسد ہے اور ٹوٹ گيا ہے، اس پر اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھنا واجب ہے.

اور اگر منى خارج نہيں ہوئى تو اس كا روزہ صحيح ہے.

ليكن ... اس كا روزہ صحيح ہونے كا معنى يہ نہيں كہ اس پر كوئى گناہ نہيں، يا اس كا روزہ كامل ہے، ہر گز معنى يہ نہيں ہے، بلكہ بندہ جو معصيت اور نافرمانى كرتا ہے، اس كى بنا پر اس كے روزے كا اجروثواب كم ہو جاتا ہے اور بعض اوقات تو روزے كا سارا ثواب ہى جاتا رہتا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص بے ہودہ باتيں اور ان پر عمل كرنا اور جھالت نہيں چھوڑتا تو اللہ تعالى كو اس كے بھوكا اور پياسا رہنے كى كوئى ضرورت نہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6057 ).

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بہت سے روزے دار ايسے ہيں جنہيں روزے سے سوائے بھوك كے كچھ حاصل نہيں ہوتا، اور بہت سے قيام كرنے والے ايسے ہيں جنہيں قيام كرنے سے شب بيدارى كے علاوہ كچھ حاصل نہيں ہوتا "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1690 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 50063 ) كے جواب كا ضرور مطالعہ كريں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارے حالات كى اصلاح فرمائے، اور ہميں گمراہى اور فتنوں سے محفوظ ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب