جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

قريب المرگ شخص كو كلمہ كى تلقين

36826

تاریخ اشاعت : 30-01-2011

مشاہدات : 6459

سوال

درج ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان:
" اپنے مرنے والوں كو لا الہ الا اللہ كى تلقين كرو "
ميں تلقين سے كيا مراد ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

تلقين تعليم اور تفھيم كو كہتے ہيں، اور اس سے مراد يہ ہے قريب المرگ شخص كے پاس بيٹھے ہوئے شخص كو چاہيے كہ وہ لا الہ الا اللہ كہہ كر مرنے والے شخص كو يہ كلمات كہنے كى ياد دھانى كرائے، جيسا كہ كسى بچے كو لا الہ الا اللہ كى تلقين اور تعليم دى جائے، اور يہاں مرنے والے سے مراد قريب المرگ شخص ہے جسے موت آنے والى ہو.

اس حالت ميں ميت كو كلمہ اخلاص لا الہ الا اللہ كى تلقين اس ليے كى جاتى ہے كہ اس كا خاتمہ اس كلمہ پر ہو، اور اس كى زبان سے ادا ہونے والے آخرى الفاظ يہ كلمہ ہوں، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا حكم بھى ديا ہے.

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنے مرنے والوں كو لا الہ الا اللہ كى تلقين كرو "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 916 ).

اور معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جس كى آخرى كلام لا الہ الا اللہ ہو اس كے ليے جنت واجب ہو گئى "

مسند احمد حديث نمبر ( 21529 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3116 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل ( 687 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك انصارى شخص كى عيادت كے ليے تشريف لائے تو فرمايا:

" اے ماموں كہو: لا الہ الا اللہ، وہ كہنا لگا: ماموں يا چچا ؟ انہوں نے كہا بلكہ ماموں ، ميرے ليے يہ كہنا بہتر ہے ؟! انہوں نے كہا جى ہاں "

مسند احمد حديث نمبر ( 13414 ) علامہ البانى رحمہ اللہ احكام الجنائز ميں كہتے ہيں: اس كى سند صحيح اور مسلم كى شرط پر ہے.

قريب المرگ شخص جب ايك بار يہ كلمہ پڑھ لے اور اس كے بعد كوئى بات نہ كرے تو اسے كثرت سے تلقين كر كے ايذاء نہيں دينى چاہيے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" علماء نے اس پر اس كى كثرت كرنا اور بار بار كہنے كو ناپسند كيا ہے تا كہ وہ تكليف كى شدت اور حالت كى تنگى كى بنا پر كہيں ڈانٹ ہى نہ دے، اور اپنے دل ميں اسے ناپسند كرنے لگے، اور ايسى بات كہہ ڈالے جو نہيں كہنى چاہيے.

ان كا كہنا ہے: اگر وہ ايك بار كلمہ پڑھ لے تو اسے بار بار نہيں پڑھانا چاہيے، ليكن اگر اس نے كلمہ پڑھنے كے بعد كوئى اور بات چيت كى ہو تو پھر اس پر يہ كلمہ پيش كرنا اور اسے تلقين كرنى چاہيے تا كہ اس كى آخرى كلام كلمہ اخلاص ہو " انتہى.

جب عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ كى موت كا وقت قريب آيا تو ايك شخص انہيں كلمہ كى تليقين كرتے ہوئے كہنے لگا: لا الہ الا اللہ كہو اور يہ بات بہت زيادہ اور كثرت سے كہى.

تو عبد اللہ بن مبارك كہنے لگے: تم اچھا نہيں كر رہے، مجھے خدشہ ہے كہ ميرے بعد تم كسى مسلمان شخص كو اذيت سے دوچار كروگے، جب تم مجھے تلقين كر چكو اور ميں كلمہ پڑھ لوں اور اس كے بعد كوئى اور كلام نہ كروں تو مجھے ميرى حالت پر چھوڑ دو، اور اگر ميں كوئى اور كلام كروں تو مجھے تلقين كرو، تا كہ ميرى آخرى كلام كلمہ ہو.

ديكھيں: سير اعلام النبلاء ( 8 / 418 ).

اور اس كلمہ كى تلقين مشروع ہے چاہے مرنے والا شخص كافر ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ اگر اس نے حالت نزع سے قبل يہ كلمہ پڑھ ليا تو اسے نفع دےگا، اور اگر اسے عذاب ديا جائے تو اس كے گناہوں كى بنا پر اسے عذاب نہيں ہوگا.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنے مرنے والوں ( قريب المرگ ) كو لا الہ الا اللہ كى تلقين كرو؛ كيونكہ موت كے وقت جس كى آخرى كلام لا الہ الا اللہ ہو گى وہ ايك نہ ايك دن جنت ميں داخل ہو گا، اگرچہ اس سے قبل اسے جو كچھ بھى پہنچ چكا ہو "

اسے ابن حبان نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 5150 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور تلقين كا حكم عام ہونے كى دليل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے چچا ابو طالب اور اس يہودى بچے كو تلقين كرنا ہے جو آپ كى خدمت كيا كرتا تھا.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ابو طالب كى موت كے وقت چچا كے پاس آئے اور كہنے لگے:

" ميرے چچا لا الہ الا اللہ پڑھ ليں، يہ ايسا كلمہ ہے اس كے ساتھ ميں اللہ تعالى كے ہاں تيرے ليے حجت بناؤنگا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3884 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 24)

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك يہودى بچے كى موت كے وقت اس كے پاس گئے جو آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى خدمت كيا كرتا تھا اور اسے كہنے لگے:

" اسلام قبول كر لو"

اور مسند احمد كى روايت ميں ہے:

" لا الہ الا اللہ پڑھ لو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1356 ) مسند احمد حديث نمبر ( 12381 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى جانب سے دو فائدے:

اول:

كيا تلقين امر كے معنى ميں ہونى چاہيے؛ دوسروں معنوں يہ كہ تلقين كرنے والا شخص قريب المرگ شخص كو كہے: لا الہ الا اللہ پڑھو، يا كہ اس كے سامنے لا الہ الا اللہ كہے تا كہ قريب المرگ شخص اسے سنے تو اسے ياد آ جائے ؟

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس سلسلے ميں مريض كى حالت كو مدنظر ركھنا چاہيے، اگر تو مريض طاقتور قوى كا مالك ہو اور برداشت كر سكتا ہو، يا پھر وہ كافر ہو تو اسے حكم دے كر كہا جائيگا كہ: تم لا الہ الا اللہ پڑھو اور لا الہ الا اللہ كے كلمہ پر اپنى زندگى كا اختتام كرو.

اور اگر وہ مسلمان ہو اور ضعيف اور كمزور قوى كا مالك ہو تو اسے حكم نہيں ديا جائيگا، بلكہ اس كے پاس بيٹھے ہوئے شخص كو خود كلمہ پڑھنا چاہيے تا كہ وہ سن كر پڑھ لے، يہ تفصيل اثر اور نظر سے ماخوذ ہے.

اثر يہ كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب كو اس كى وفات كے وقت فرمايا تھا كہ:

" اے ميرے چچا تم لا الہ الا اللہ پڑھ لو "

اور نظر سے اس طرح ماخوذ ہے كہ:

اگر تو وہ يہ كلمہ كہہ لے تو يہ اس كے ليے بہتر ہے، اور اگر وہ نہ كہے تو كافر، اگر فرض كريں كہ اس سے اس كا سينہ تنگ ہو جائے اور وہ يہ كلمہ نہ كہے تو وہ اپنى اسى حالت پر باقى رہےگا اور اس پر كوئى اثر نہيں كريگا، اور اسى طرح اگر وہ مسلمان شخص ہو اور تحمل و برداشت كا مالك ہو تو ہم اسے اس كا حكم ديں تو يہ اس پر اثرانداز نہيں ہوگا، اور اگر ضعيف اور كمزور قوى كا مالك ہو اور ہم اسے حكم ديں كہ كلمہ پڑھو تو اس كا رد فعل ہو سكتا ہے كہ اس سے اس كا سينہ تنگ ہو جائے، اور وہ غصہ ميں آكر كلمہ كا انكار كردے اور وہ اس دنيا سے رخصت ہو رہا ہو، بعض لوگ ايسے بھى ہوتے ہيں كہ جب انہيں صحت اور تندرستى كى حالت ميں كہا جائے كہ كلمہ پڑھو تو وہ جواب ديتا ہے كہ ميں لا الہ الا اللہ نہيں كہتا، تو پھر غصہ كے وقت تو بعض لوگ تو اتنے غصہ ميں ہوتے ہيں كہ بھول ہى جاتے ہيں اور جواب ديتے ہيں كہ ميں لا الہ الا اللہ نہيں كہتا تو پھر اس حالت ميں كيا حال ہوگا ؟

دوم:

" اسے لا الہ اللہ كى تلقين اور تعليم دى جائيگى اور ہم اسے محمد رسول اللہ كے الفاظ نہيں كہينگے؛ كيونكہ حديث ميں صرف لا الہ الا اللہ ہى كے الفاظ آئے ہيں:

" اپنے مرنے والوں كو لا الہ الا اللہ كى تلقين كرو "

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس شخص كى دنيا ميں آخرى كلام لا الہ الا اللہ ہو وہ جنت ميں داخل ہو گيا "

تو اس طرح كلمہ توحيد اسلام كى كنجى ہے، اور اس كے بعد جو كچھ ہے وہ اس كے تكميل اور فروعات ہيں.

اور اگر وہ دونوں شہادتوں كو جمع كرتے ہوئے پورا كلمہ طيبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ كہے تو اس ميں مانع نہيں كہ اس كى دنيا ميں آخرى كلام لا الہ الا اللہ نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى رسالت كى شہادت دينا پہلے كے تابع اور اس كى تكميل ہے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اللہ تعالى كى الوہيت كى شہادت دينے كو ايك ركن قرار ديا ہے.

اس ليے اسے دوبارہ تلقين نہيں كى جائيگى، اور دلائل سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ قريب المرگ شخص كا يہ كہنا: اشھد ان محمدا رسول اللہ كہنا كافى نہيں، بلكہ اس كے ساتھ لا الہ الا اللہ كے الفاظ كہنا ضرورى ہيں " انتہى.

الشرح الممتع ( 5 / 177 ).

اور اگر مسلمان شخص طاقتوى قوى اور قوى ايمان كا مالك ہو تو مندرجہ بالا انصارى والى حديث سے امر اور حكم كا استدلال كيا جا سكتا ہے، اس حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس انصارى كو كہا تھا:

" اے ماموں جان: لا الہ الا اللہ كہو "

اسى طرح عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كو جب طبيب نے دودھ پلايا اور دودھ خنجر والے زخم سے بالكل سفيد خارج ہوا تو طبيب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو كہنے لگا:

" اے اميرالمؤمنين ميثاق اور عہد: تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اس نے ميرے ساتھ سچ بولا ہے، اور اگر يہ اس كے علاوہ كوئى اور بات كہتا تو ميں اس كى بات تسليم نہ كرتا اور اسے جھٹلا ديتا، تو پاس بيٹھے ہوئے لوگوں نے جب يہ سنا تو رونے لگے، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:

جو شخص روئےگا وہ باہر نكل جائے، كيا تم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان نہيں سنا كہ:

" ميت كو اس كے اہل و عيال كے رونے سے عذاب ہوتا ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 296 ) احمد شاكر رحمہ اللہ نے اس كى سند كو صحيح كہا ہے.

تو يہاں اس طبيب نے عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو امر كے صيغہ سے مخاطب كيا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب