جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

حدیث ( الارواح جنود مجندۃ ) کا معنی

3864

تاریخ اشاعت : 18-05-2003

مشاہدات : 16434

سوال

میں ایک نئ مسلمہ ہوں اورانٹرنیٹ پرمیر لنک یہ ہے ۔۔۔۔۔ میں نے مندرجہ ذيل حديث دیکھی تواپنی استاد سے اس کے بارہ میں سوال کیا استاد کا جواب بھی ذکر کروں گی ، مجھے اس جواب اورحدیث کے معنی سے بہت ہی زیادہ تکلیف ہوئ ، توکیا یہ ممکن ہے کہ آپ اس موضوع میں ذرا تفصیل سے جواب دیں اور کیا اس موضوع میں کوئ اوراحادیث بھی ہیں جواس حدیث کے معنی کی تاکید کرتی ہوں ؟
وہ حدیث صحیح مسلم میں اس طرح مروی ہے :
ابوھریرہ رضی اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : روحیں مجتمع لشکر ہیں توجوان میں سے پہچانتی ہیں وہ مانوس ہوتی اورجومختلف ہوتی ہیں جدا جدا ہوجاتی ہیں ۔ صحیح مسلم( 6376 )
حدیث یہ نہیں کہتی کہ لوگ پیدائش سے قبل زندہ تھے ، بلکہ یہ کہا کہ روحیں جنت میں تھیں اوریہ جنت وہ نہیں جس میں آخر ت کے اندرمسلمان جائيں گے بلکہ یہ توکوئ اورجگہ ہے جسے ہم نہیں جانتے ، یہ لوح محفوظ میں ہے اوراللہ وحدہ ہی جانتا ہے کہ وہ کہاں ہے ۔
یعنی اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ وہ جگہ ایک بنک کی طرح ہے جس جگہ سے روحوں کوپیدا فرماتا ہے ۔
جب عورت حاملہ ہوتی اوراللہ تعالی رحم مادرمیں پاۓجانے والے بچے میں روح پھونکتا ہے توبچے کویا توخبیث روح دی جاتی ہے اوریاپھر اسےاچھی روح ملتی ہے ، اگر اسے اچھی روح ملے تووہ اچھا شخص بن جاۓ گا ، اوراگر اسے خبیث روح دی جاۓ تووہ خبیث شخص بنے گا ، لیکن اسے کے باوجود انسان یہ استطاعت رکھتا ہے کہ وہ اپنی اس تقدیر کواپنے اعمال کے اعتبار سے بدل دے ، اوریہاں پردعا اورنیت کا بھی بہت بڑا اور اہم دخل ہے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.


امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہ سے تعلیقا روایت بیا ن کی ہے کہ :

عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا :

روحیں مختلف قسم کے لشکر ہیں ان میں جوآپس میں تعارف رکھتی ہيں وہ مانوس اورجوتعارف نہیں رکھتی وہ جدارہتی ہے ۔ صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب الارواح جنود مجندہ ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح کرتے ہوۓ کہتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ( الارواح جنود مجند‏ۃ ) خطابی کا کہنا ہے احتمال ہے کہ اس میں اس طرف اشارہ ہوکہ ان میں مختلف اشکال خیروشر اورصلاح وفساد والی ہوتی ہيں ۔

اس لیے کہ لوگوں میں سے اچھے لوگ اپنی طرح کے لوگوں کی طرف ہی جاتے ہیں اورشریر اپنی طرح کے شریر کی طرف ہی مائل ہوتا ہے توروحوں کا تعارف ان طبعیتوں پرہے جن پربھلائ اورشرمیں انہیں پیدا کیا گيا ، توجب اس میں اتفاق ہوتو ان کا آپس میں تعارف ہوجاتا اوراگر وہ اس میں مختلف ہوں توایک دوسرے سے علیحدہ ۔

اوریہ بھی احتمال ہے کہ حالت غیب کے اندر اس میں مخلوق کی ابتدا کی خبر ہو اس لیے کہ روحیں جسموں سے پہلے پیدا کی گئ اوروہ آّپس میں ملتی جلتی رہیں توجب انہیں اجسام میں ڈالا گيا توپہلے تعارف کی بنا پرہی ایک دوسرے سے تعارف ہوا جوکہ پہلے گذر چکا تھا ۔

اوردوسرے کہتے ہیں کہ:

اس سے مراد یہ ہے کہ شروع میں جب روحیں پیدا کي گئيں توان کی دوقسمیں تھیں ، تومعنی اسی مقابلہ میں ہے کہ جب دنیا ميں روح والے جسم ملتے ہیں یاتومانوس ہوتے ہیں یا مختلف جس مناسبت سےروحوں کوپیدا کیا گيا ہے ۔

حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں :

اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض آپس میں نفرت کرنے ہوسکتا ہے کہ آپس میں مانوس ہوجائيں اس لیے کہ یہ ملاقات کی ابتدا پر محمول ہے ، کیونکہ وہ سبب کے بغیراصل پیدائش کےمتعلق ہے ، اوردوسری حالت میں یہ ایسے وصف نۓ وصف سے مکتسب ہوجو کہ نفرت کے بعد الفت کا تقاضا کرے مثلا کافرکا ایمان لانا ، اورغلطی کرنے والے کا احسان کرنا ،

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ( جنود مجندۃ ) یعنی مختلف جنسیں اوریا پھر جمع شدہ لشکر ۔

ابن جوزي رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اس حدیث سے حاصل ہوتا ہے کہ انسان جب اپنے نفس میں فضیلت اوراصلاح والی چیزسے نفرت پاۓ تواسے چاہۓ کہ وہ اس کا سبب تلاش کرے تا کہ اس مذموم وصف سے نجات حاصل کرسکے ، اوراسی طرح اس کے برعکس بھی یہی حالت ہو تو اسی طرح کرنا چاہۓ ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

روحیں اگرچہ وہ سب روحیں ہونے میں متفق ہیں لیکن مختلف امور کی بنا پر ان میں امتیازی حیثیت بھی ہوتی ہے ، توایک ہی نوع کے اشخاص کئ ایک اشکال میں ہیں اورکسی سبب سے اس نوع میں کوئ خاص اورمناسب معنی جمع ہو ، اسی لیے ہم یہ مشاھدہ کرتے ہیں کہ ہرنوع اپنی جیسی ہی سے انس رکھتی اورمخالف سے نفرت کرتی ہے ، پھرہم ایک ہی نوع کے بعض اشخاص کومانوس اوربعض کو نفرت کرتے ہوۓ دیکھتے ہیں ، تو یہ ان امور کی بنا پر ہے جس کی وجہ سے انفرادی حیثیت اوراتفاق ہوتا ہے ۔

اور ہم نے اسے مسند ابو یعلی میں موصولا روایت کیا ہے اوراس کےابتدا میں قصہ ہے کہ عمرہ بنت عبدالرحمن کہتی ہیں :

مکہ میں ایک خوش مزاج عورت تھی تووہ مدینہ میں بھی اپنی طرح کی ایک عورت کے پاس ٹھری ، عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا کو اس کا علم ہوا تووہ فرمانے لگيں : میرے محبوب نے سچ فرمایا ، میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا ، توانہوں نے اسی طرح کی بات ذکر کی ۔ انتھی ۔

اورحدیث کوامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی صحیح ( 4773 ) میں بیان کیا اس کی شرح میں امام نووی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

( روحیں مختلف قسم کے لشکر ہیں ان میں جوآپس میں تعارف رکھتی ہيں وہ مانوس اورجوتعارف نہیں رکھتی وہ جدارہتی ہے ) ۔

علماء کا کہنا ہے کہ اس کا معنی جمع کردہ لشکر یا مختلف انواع ہیں ، اوراس کا تعارف وہ امر ہے جس پر اللہ تعالی نے اسے بنایا ہے ۔

اوریہ بھی کہا گيا ہے کہ : اللہ تعالی نے جن صفات پر اسے بنایا ہے وہ اس کے مواف‍ق ہے ، اوراس کی نحوست میں اس کے مناسبت رکھتی ہے توجس نے اسےاس سے دورکیا وہ اس سے نفرت اور اس کی مخالفت کرتی ہے ۔

اورخطابی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

اس کا مانوس ہونا یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اسے ابتدامیں جس شقاوت اورسعادت پر پیدا فرمایا ہے ، اورروحیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں دوقسمیں تھیں ، توجب وہ دنیا کے اندر اجسام میں ملتی ہیں توجس پروہ پیدا کی گئ تھیں اس کے اعتبارسے مانوس اور اختلاف کرتی ہیں تواچھی روحیں اچھی روحوں کی طرف اورشریراوربری روحیں شریر اوربری روحوں کی طرف ہی مائل ہوتی ہیں ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد