منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

مواشى ميں زكاۃ اس وقت ہو گى جب ان كے چارہ ميں اخراجات نہ ہوتے ہوں

40156

تاریخ اشاعت : 09-04-2006

مشاہدات : 6272

سوال

كيا ان بكريوں ميں زكاۃ ہے جنہيں چارہ ڈالنے ميں ماہانہ اخراجات صرف ہوتے ہوں، يا كہ بغير كسى اخراجات اور مصاريف كے قدرتى جڑى بوٹياں اور نباتات چرنے والى بكريوں ميں زكاۃ ہو گى، برائے مہربانى وضاحت كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جمہور اہل علم جن ميں آئمہ ثلاثۃ ابو حنيفہ، شافعى اور احمد شامل ہيں كہتے ہيں كہ مواشى ( اونٹ، گائے اور بكرى ) ميں زكاۃ اس وقت ہو گى جب وہ چرنے والى ہوں ( يعنى قدرتى گھاس اور جڑى بوٹياں چريں اور ان كا مالك انہيں چارہ نہ ڈالے ) اور اگر مالك خود چارہ ڈالتا ہو تو اس ميں زكاۃ نہيں ہے.

انہوں نے دليل يہ دى ہے كہ:

1 - مام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے انس رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں جب بحرين بھيجا تو انہيں يہ خط لكھا:

بسم اللہ الرحمن الرحيم

يہ فرضى زكاۃ ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض كى اور اللہ تعالى نے اس كا اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو حكم ديا لہذا مسلمانوں ميں سے جس سے بھى يہ زكاۃ اتنى ہى طلب كى گئى وہ اس كى ادائيگى كرے، اور جس سے اس ( مقدار ) سے زيادہ طلب كى جائے وہ اسے ادا نہ كرے...

اور چرنے والى بكريوں ميں زكاۃ يہ ہے كہ اگر ان كى تعداد چاليس سے ايك سو بيس تك ہو تو اس ميں ايك بكرى ہو گى .... " الحديث

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1454 ).

تو يہاں حديث ميں انہوں نے چرنے كے ساتھ مقيد كيا ہے، جو كہ اس كى دليل ہے كہ جو چرنے والى نہ ہو اس ميں زكاۃ نہيں.

2 - امام نسائى رحمہ اللہ تعالى نے بہز بن حكيم سے اور انہوں نے اپنے والد سے بيان كيا وہ كہتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" ہر چرنے والے چاليس اونٹوں ميں ايك بنت لبون ہے ... " الحديث

سنن نسائى حديث نمبر ( 2444 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث كو ارواء الغليل ( 791 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اس حديث ميں اونٹ كو چرنے كے ساتھ مقيد كيا گيا ہے جو اس كى دليل ہے كہ اس كے علاوہ ميں زكاۃ نہيں ہو گى.

اور گائے كا حكم بھى اونٹ اور بكرى كا ہى ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 33 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:

" اور چرنے كے ساتھ مقيد والا مفہوم ہمارے ہاں حجت ہے، اور چرنے والا مويشى وہ ہے جو چرے اور اسے چارہ نہ ڈالا جائے، اور السوم الرعى يعنى چرنے كو كہا جاتا ہے" اھـ

اور ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:

اور سائمۃ يعنى چرنے كا ذكر كرنے ميں چارہ ڈالے جانے والے جانور سے احتراز برتنا ہے، كيونكہ جسے چارہ ڈالا جائے اس ميں اہل علم كے ہاں زكاۃ نہيں ہے. اھـ

اور امام مالك رحمہ اللہ تعالى كا اس ميں مسلك يہ ہے كہ مويشيوں ميں مطلقا زكاۃ واجب ہے، چاہے وہ چرنے والا ہو يا دوسرا، انہوں نے بعض احاديث ميں لفظ اونٹ كے مطلقا ذكر ہونے سے استدلال كيا ہے، كيونكہ اسے چرنے كے ساتھ مقيد نہيں كيا گيا، جيسا كہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے جو انس رضى اللہ تعالى عنہ كو خط لكھا تھا اس ميں ہے:

( اور چوبيس اور اس سے زيادہ ميں ہر پانچ اونٹ پر ايك بكرى ہے ).

جمہور علماء كرام نے اس استدلال كا جواب يہ ديا ہے كہ:

يہ حديث مطلق ہے، اوردوسرى احاديث چرنے كے ساتھ مقيد ہيں، اور اس ميں قاعدہ يہ ہے: مطلق كو مقيد پر محمول كيا جائے گا.

اور انہوں نے اس كى تائيد اس قول سے كى ہے:

مويشيوں كى زكاۃ ميں نمو، كثرت، اور زيادتى كا وصف معتبر ہے، اور چرنے والے ميں نمو اور بڑھنا ظاہر ہے، كيونكہ اسے پالنے ميں اخراجات اور خرچہ نہيں ہوتا، ليكن جس جانور كو چارہ ڈالا جائے اسے پالنے ميں اخراجات ہوتے ہيں، اور ہو سكتا ہے اس كى بڑھوتى اس چارہ ڈالنے كو سمو لے ( يعنى اس كى بڑھوتى چارہ ڈالنے كے اخراجات كے برابر ہو ) تو اللہ تعالى كى طرف سے يہ حكمت اور اپنے بندوں پر اس كى رحمت ہے كہ اس نے اس ميں سے زكاۃ ساقط كر دى.

ليكن اگر وہ تجارتى بنياد پر پالے جائيں، جيسا كہ مويشى فارم ہوتے ہيں جس ميں مويشى خريدے جاتے اور پھر انہيں چارہ ڈال كر پال كر فروخت كيا جاتا ہے، تو اس ميں تجارت كى زكاۃ ہو گى.

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 4 / 12 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 23 / 250 ).

اور تجارت كى زكاۃ كا حساب اور اس كى مقدار معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 10823 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

شيخ الاسلام ابن تيميمہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور اس حديث ميں اس كا يہ قول: ( چرنے والى بكريوں ميں )

اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، كيونكہ سائمہ چرنے والے جانور كو كہتے ہيں، امام مالك رحمہ اللہ تعالى كا مسلك يہ ہے كہ: كھيتى باڑى والے اونٹ اور گائے بيل اور چارہ ڈالے جانے والے مينڈھوں ميں زكاۃ ہے.

ابو عمر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اور ليث رحمہ اللہ كا قول يہى ہے، ميرے علم كے مطابق ان دونوں كے علاوہ كسى اور كا يہ قول نہيں ہے.

اور امام شافعى، امام احمد، اور امام ابو حنيفہ رحمہم اللہ تعالى اور اسى طرح ثورى اور اوزاعى وغيرہ كا قول يہ ہے كہ:

ان ميں زكاۃ نہيں.

اور صحابہ كرام كى ايك جماعت جن ميں على، جابر، معاذ بن جبل رضى اللہ تعالى عنہم شامل ہيں سے بھى يہى مروى ہے، اور عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى نے بھى يہى لكھا.

اور بہز بن حكيم عن ابيہ عن جدہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ہر چاليس چرنے والے ( اونٹوں ) ميں ايك بنت لبون ہے "

تو انہوں نے اس ميں سائمہ كے ساتھ مقيد كيا ہے، اور جب ايك ہى جنس ہو تو بلا كسى اختلاف كے مطلق كو مقيد پر محمول كيا جائے گا، اور اسى طرح چرنے والى بكريوں كے متعلق ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث بھى. اھـ

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 32 ).

اور مستقل كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" اونٹ، گائے اور بكريوں كى زكاۃ واجب ہونے كى شرط ميں يہ ہے كہ وہ چرنے والے ہوں " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ اللبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 205 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب