منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

بيوى كو اسقاط حمل پر مجبور كرنا

40269

تاریخ اشاعت : 15-07-2007

مشاہدات : 13089

سوال

ايك خاوند نے بيوى كو طلاق دينے كى غرض سے دوسرے ماہ كا حمل ضائع كرنے كى كوشش كى اور اس كے ليے دوائى بھى دى ليكن حمل ضائع نہ ہوا، آيا ايسا كرنا حلال ہے يا حرام، اور اس عمل كا كفارہ كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حمل ضائع كرنا جائز نہيں چاہے حمل ميں روح پڑ چكى ہو يا نہ پڑى ہو، ليكن روح پڑنے كے بعد اس كا ضائع كرنے كى حرمت تو اور بھى زيادہ شديد ہو جاتى ہے، اور اگر بيوى كو خاوند حمل ضائع كرنے كا حكم بھى دے تو بيوى كے ليے اس كى اطاعت كرنى حلال نہيں.

شيخ محمد بن ابراہيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اسقاط حمل كى كوشش كرنى جائز نہيں، جب تك كہ اس كى موت كا يقين نہ ہو چكا ہو، اور جب حمل كى موت كا يقين ہو چكا ہو تو پھر اسقاط حمل جائز ہے.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن ابراہيم ( 11 / 151 ).

اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

اول:

حمل ضائع كرانا جائز نہيں، اس ليے اگر حمل ہو چكا ہو تو اس كى حفاظت اور خيال ركھنا واجب ہے، اور ماں كے ليے اس حمل كو نقصان اور ضرر دينا، اور اسے كسى بھى طرح سے تنگ كرنا حرام ہے، كيونكہ اللہ تعالى نے اس كے رحم ميں يہ امانت ركھى ہے، اور اس حمل كا بھى حق اس ليے اس كے ساتھ ناروا سلوك اختيار كرنا، يا اسے نقصان اور ضرر دينا، يا اسے ضائع و تلف كرنا جائز نہيں.

اور پھر حمل كے ضائع اور اسقاط كى حرمت پر شرعى دلائل بھى دلالت كرتے ہيں:

اور آپريشن كے بغير ولادت كوئى ايسا سبب نہيں جو اسقاط حمل كے جواز كا باعث ہو، بلكہ بہت سى عورتوں كے ہاں ولادت تو آپريشن كے ذريعہ ہى ہوتى ہے، تو اسقاط حمل كے ليے يہ عذر نہيں ہو سكتا.

دوم:

اگر اس حمل ميں روح پھونكى جا چكى ہو، اور اس ميں حركت ہونے كے بعد اسقاط حمل كيا جائے اور بچہ مر جائے تو يہ ايك جان كو قتل كرنا شمار كيا جائيگا، اور اسقاط حمل كرانے والى عورت كے ذمہ كفارہ ہو گا جو كہ يہ ہے:

ايك غلام آزاد كرنا ہے، اگر وہ غلام نہ پائے تو مسلسل دو ماہ كے روزے ركھنا اس كى توبہ شمار ہو گى، اور يہ اس وقت ہے جب حمل چار ماہ كا ہو چكا ہو، كيونكہ اس ميں اس وقت روح پھونكى جا چكى ہوتى ہے، اس ليے اگر اس مدت كے بعد اسقاط حمل كرائے تو اس پر كفارہ لازم آئيگا، جيسا كہ ہم نے بيان كيا ہے، اور يہ معاملہ بہت عظيم ہے اس ميں تساہل اور سستى كرنى جائز نہيں.

اور اگر بيمارى كى بنا پر وہ حمل برداشت نہيں كر سكتى تو وہ حمل سے قبل ہى مانع حمل ادويات كا استعمال كرے، مثلا وہ ايسى گولياں استعمال كر لے جو كچھ مدت تك حمل كے ليے مانع ہوتى ہيں، تا كہ اس عرصہ كے دوران اس كى صحت اور قوت بحال ہو جائے.

ديكھيں: المنتقى ( 5 / 301 - 302 ) اختصار كے ساتھ.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص نے اپنى بيوى كو كہا: اپنا حمل گرا دو اس كا گناہ ميرے ذمہ، تو اگر وہ اس كى بات سن كر اس پر عمل كر لے تو ان دونوں پر كيا كفارہ واجب ہو گا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

اگر بيوى ايسا كر لے تو ان دونوں پر كفارہ يہ ہے كہ وہ ايك مومن غلام آزاد كريں، اور اگر غلام نہ ملے تو دو ماہ كے مسلسل روزے ركھيں، اور ان دونوں كے ذمہ اس كے وارثوں كو ايك غلام يا لونڈى كى ديت دينا ہو گى جس نے اسے قتل نہ كيا ہو، باپ كو نہيں، كيونكہ باپ نے تو قتل كرنے كا حكم ديا ہے، اس ليے وہ كسى بھى چيز كا مستحق نہيں. اھـ

اور ان كى يہ عبارت:

" غرۃ عبد او امۃ "

يہ ايك غلام يا لونڈى كى قيمت كى شكل ميں بچے كى ديت ہے، اور اس كا اندازہ ماں كى ديت كے عشر كے مطابق علماء كرام لگائينگے.

اسقاط حمل كا حكم كئى ايك جوابات ميں بيان ہو چكا ہے جن ميں سے چند ايك جواب ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 13317 ) اور ( 42321 ) اور ( 12733 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

اور رہا اس كا كفارہ تو اس ليے كہ ابھى حمل دوسرے ماہ ميں تھا يعنى اس ميں ابھى روح نہيں پھونكى گئى تھى، اور يہ حمل ساقط بھى نہيں ہوا تو اس سے كفارہ واجب نہيں ہوا، بلكہ اس حرام فعل كے مرتكب ہونے كى بنا پر اسے اللہ تعالى سے توبہ و استغفار كرنى چاہيے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب