جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اسلحہ كے زور پر چورى اور دست درازى كرنے والے كا حكم

41682

تاریخ اشاعت : 17-07-2007

مشاہدات : 7430

سوال

جو گروپ يا افراد اسلحہ كے زور پر چورى كرتے ہيں اور عورتوں كو اغواء كر كے عزت لوٹنے ہيں ان كا حكم كيا ہے، آيا يہ اسلحہ سے دھمكانے ميں شامل ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ايسے جرائم بعض وہ افراد كرتے ہيں جن كا كوئى دين نہيں ہوتا، شريعت مطہرہ نے اس كى سزا بہت سخت ركھى ہے جو علماء كے ہاں " حد الحرابہ يا ڈاكؤوں كى حد " كے نام سے معروف ہے، اور يہ حد اللہ سبحانہ و تعالى كے درج ذيل فرمان ميں بيان كى گئى ہے:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

نہيں سوائے اس بات كے كہ جو لوگ اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف جنگ كرتے ہيں، اور زمين ميں فساد مچانے كى كوشش كرتے ہيں انہيں يا تو قتل كر ديا جائے، يا پھر انہيں سولى پر چڑھا ديا جائے، يا پھر ان كے الٹ ہاتھ اور پاؤں كاٹ ديے جائيں، يا انہيں جلاوطن كر ديا جائے، يہ ان كے ليے دنيا ميں ذلت ہے، اور انہيں آخرت ميں بہت زيادہ عذاب ہو گا المآئدۃ ( 33 ).

حرمين الشريفين كى كبار علماء كميٹى نے شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كى صدارت ميں ان جرائم كے متعلق ايك فيصلہ كيا ہے جس ميں درج ہے:

" كميٹى نے پانچوں ضروريات يعنى دين، جان و مال اور عزت و عقل كى حفاظت كے وجوب اور اس كے اسباب كو صحيح سالم ركھنے كا خيال كرنے كے متعلق علماء كرام نے جو شرعى احكام بيان كيے ہيں اس كا مطالعہ كرنے كے بعد ان خطرات كا اندازہ كيا ہے جو مسلمانوں كى عزت و نفس يا ان كے اموال پر زيادتى، يا ملك ميں امن و امان كى صورت حال كو تہ و بالا كرنے كا باعث بننے والے جرائم سے جنم ليتے ہيں.

اور اللہ سبحانہ وتعالى نے لوگوں كے دين و مال اور اور ان كى جان و روح اور عزت و عقل كو محفوظ بنانے كے ليے وہ قوانين اور حدود اور سزائيں متعين كى ہيں جن كى بنا ہر خاص و عام كو امن و امان حاصل ہوتا ہے، اور آيت حرابہ كے حكم اور مقتضى اور محاربين يعنى فساديوں اور ڈاكؤوں پررسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے مطابق حد كى تنفيذ امن و امان اور اطمنان كى كفيل ہے، اور مسلمانوں كى عزت و مال كے خلاف زيادتى جيسے جرائم كا ارادہ كرنے والے شخص كو اس سے باز ركھنے كى ضامن ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى فرماتا ہے:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

نہيں سوائے اس بات كے كہ جو لوگ اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف جنگ كرتے ہيں، اور زمين ميں فساد مچانے كى كوشش كرتے ہيں انہيں يا تو قتل كر ديا جائے، يا پھر انہيں سولى پر چڑھا ديا جائے، يا پھر ان كے الٹ ہاتھ اور پاؤں كاٹ ديے جائيں، يا انہيں جلاوطن كر ديا جائے، يہ ان كے ليے دنيا ميں ذلت ہے، اور انہيں آخرت ميں بہت زيادہ عذاب ہو گا المآئدۃ ( 33 ).

اور صحيحين يعنى بخارى و مسلم شريف ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ عكل قبيلہ سے كچھ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے، اور وہ صفہ ميں رہتے تھے تو انہيں مدينہ كى آب و ہوا موافق نہ آئى اور وہ بيمار ہو گئے تو كہنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے ليے دودھ منگوائيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرے پاس اس كے متعلق تو تمہارے ليے يہى ہو سكتا ہے كہ تم اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے اونٹوں كے پاس چلے جاؤ، تو وہ وہاں چلے گئے اور ان كا دودھ اور پيشاب پيا حتى كہ صحت ياب ہو كر موٹے ہو گئے تو چرواہوں كو قتل كر كے اونٹ ہانك كر چلتے بنے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس اس كى خبر پہنچى تو انہوں نے ان كے پيچھے آدمى روانہ كيے، ابھى دن بھى نہ چڑھا كہ انہيں پكڑ كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لايا گيا.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوہے كى سلاخيں گرم كرنے كا حكم ديا اور گرم كر كے ان كى آنكھوں ميں پھيرى گئى، اور ان كى ٹانگوں اور ہاتھوں كو كاٹ ديا گيا، اور داغ لگا كر ان كا خون نہ بند كيا گيا پھر انہيں صحراء ميں پھينك ديا گيا، وہ پانى مانگتے تو انہيں پانى نہيں ديا جاتا تھا، حتى كہ وہ ہلاك ہو گئے "

ابو قلابہ كہتے ہيں انہوں نے چورى كيا اور قتل بھى كيا، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف جنگ بھى كى.

مندرجہ بالا سطور ميں جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر كميٹى درج ذيل امور كا فيصلہ كرتى ہے:

ا - بطور تكبر سب كے سامنے علانيہ طور پر اغوا اور مسلمانوں كى حرمت و عزت و ناموس پامال كرنے كے جرائم محاربہ اور زمين ميں فساد جيسے جرائم ميں شمار ہوتے ہيں، جس كى بنا پر اس سزا كا مستحق ٹھرا جاتا ہے جسے اللہ تعالى نے سورۃ المآئدۃ كى آيت محاربہ ميں بيان كيا ہے.

چاہے يہ جرم كسى كى جان پر ہو يا مال يا عزت پر ڈاكہ ڈالا جائے، يا راہ ميں خوف پيدا كيا جائے اور ڈاكہ ڈالا جائے يہ سب كچھ برابر ہے، اور اس كا بستى يا شہر يا صحراء ميں ارتكاب كيا جانا سب برابر ہے، اس ميں كوئى فرق نہيں، جيسا كہ علماء رحمہم اللہ كى رائے ميں راجح يہى ہے.

ابن العربى رحمہ اللہ اپنے قاضى ہونے كے وقت مقدمات بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" ميرے پاس كچھ ايسے لوگ لائے گئے جو زمين ميں فساد مچاتے اور ڈاكے ڈالتے تھى ( يعنى محاربين ميں سے تھے ) وہ ايك جگہ ڈاكہ ڈالنے گئے تو وہاں سے انہوں نے مسلمانوں اور خاوند كے سامنے ايك عورت كو زبردستى اٹھا ليا.

چنانچہ انہيں كوشش كر كے پكڑ ليا گيا اور ميرے پاس لايا گيا تو ميں نے ان ميں سے ايك شخص جس كے ساتھ اللہ نے مجھے آزمائش ميں ڈالا تھا سے سوال كيا تو وہ كہنے لگے كہ ہم محاربين تو نہيں! كيونكہ محاربہ تو مال چھيننا ہے، نہ كہ فرج اور عزت پر ڈاكہ ڈالنا!

تو ميں نے انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھتے ہوئے كہا! كيا تمہيں علم نہيں كہ كسى عورت كى عزت لوٹنى تو مال ميں ڈاكہ ڈالنے سے بھى زيادہ فحش اور گندا كام ہے؟! اور سب لوگ يہ چاہيں گے كہ تم ان سامنے سے ان كا مال چھين كر لے جاؤ، ليكن كوئى بھى شخص يہ نہيں چاہتا كہ اس كى بيوى اور بيٹى كو كچھ كہا جائے، اگر اللہ تعالى كے فرمان سے بھى كوئى زيادہ سزا ہوتى تو عزت لوٹنے والوں كو وہ سزا دى جاتى. انتہى.

ب ـ كميٹى كى رائے يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كے درج ذيل فرمان:

نہيں سوائے اس بات كے كہ جو لوگ اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف جنگ كرتے ہيں، اور زمين ميں فساد مچانے كى كوشش كرتے ہيں انہيں يا تو قتل كر ديا جائے، يا پھر انہيں سولى پر چڑھا ديا جائے، يا پھر ان كے الٹ ہاتھ اور پاؤں كاٹ ديے جائيں، يا انہيں جلاوطن كر ديا جائے، يہ ان كے ليے دنيا ميں ذلت ہے، اور انہيں آخرت ميں بہت زيادہ عذاب ہو گا المآئدۃ ( 33 ).

ميں " او " تخيير كے ليے ہے، جيسا كہ آيت كريمہ سے ظاہر ہو رہا ہے، اور اہل علم رحمہم اللہ ميں سے اكثر محققين كا بھى يہى قول ہے.

ج ـ كميٹى كى اكثر رائے يہى ہے كہ حكمران كے جج اور قاضى جرم كى نوعيت اور اس كے حكم كو ثابت كريں، اور جب ان كے ہاں يہ ثابت ہو جائے كہ يہ اللہ تعالى اور اس كے رسول كے خلاف محاربہ اور جنگ اور زمين ميں فتنہ و فساد مچانے كى كوشش و سعى ہے، تو پھر انہيں قتل يا سولى چڑھانے، يا الٹ ہاتھ پاؤں كاٹنے، يا جلا وطن كرنے ميں سے اپنے اجتھاد كے مطابق كسى بھى حكم كو اختيار كرنے كا اختيار حاصل ہے.

اس ميں انہيں مجرم كے واقع اور جرم كى حالت اور معاشرے پر اس كى اثراندازى، اور اسلام اور مسلمانوں كے ليے حاصل ہونے والى مصلحت كا خيال ركھنا ہو.

ليكن اگر محارب شخص نے قتل بھى كيا ہو تو پھر اسے حتمى طور پر قتل كرنا ہوگا، جيسا كہ ابن العربى مالكى نے بطور اجماع بيان كيا ہے، اور حنابلہ ميں سے الانصاف كے مصنف نے كہا ہے كہ: " اس ميں كوئى نزاع و اختلاف نہيں " انتہى.

ماخوذ از: كبار علماء كرام كميٹى كى بحث بعنوان: الحكم فى السطو و الاختلاف المسكرات صفحہ نمبر ( 192 - 194 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب