منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

دوران حج نقاب کیے رکھا تو کیا اس پرکچھ لازم آتا ہے

4182

تاریخ اشاعت : 18-11-2008

مشاہدات : 13860

سوال

دوبرس قبل میں حج پرگئي تومیں نے نقاب کیے رکھا ، پھرمجھے علم ہوا کہ دوران حج چہرہ ڈھانپنا جائز نہيں ، لیکن جب میں نے نقاب کیا تومجھے باوثوق ذرا‏ئع سے کہا گيا تھا کہ چہرہ ڈھانپنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


1 - عورت کے لیے چہرے کا پردہ کرنا اوراسے چھپانا اخلاق حسنہ میں شامل ہوتا ہے اللہ تعالی پردہ کرنے والیوں پربہت زيادہ رحم کرے ، میری دینی بہن شائد آپ کا سوال صرف دین کی حرص کی بنا پرہی ہے – اللہ تعالی آپ کی حرص اورزيادہ فرمائے – لیکن سب سے بڑی حرص یہ ہے کہ ہم ان دینی احکامات کی پابندی کریں جوعورت کو نماز ، اورحج میں نقاب اتارنے کا کہتے ہیں ۔

اورخاص کرنماز میں توکسی بھی حالت میں چہرہ ڈھانپنا حلال نہيں صرف اس صورت میں کہ اگرکوئي غیرمحرم مرد موجود ہوتو ، اورحج میں عورت کے لیے جائز ہے کہ اپنے چہرہ کوچادر سے چھپائے لیکن اس کے لیے نقاب پہننا جائزنہيں نقاب جسے برقع کہا جاتا ہے ( یعنی چہرے کے ساتھ چمٹ والے نقاب جودونوں طرف سے باندھا جاتا ہے ) عورت کےلیے احرام کی حالت میں اسے باندھنا جائز نہيں ۔

لیکن اس کے لیے یہ حلال ہے کہ وہ اپنے چہرہ کواپنی اوڑھنی کے ذریعہ یعنی سرسے کپڑا نیچے ڈال کرچہرہ چھپائے ( یعنی جب غیرمحرم مرد سامنے آئيں تواسے چہرہ چھپانا ہوگا ) لیکن اگر نقاب کے علاوہ اورکچھ ملنا مشکل ہواوراس کے سامنے غیرمحرم مرد آجائيں تواس حالت میں وہ نقاب کے ذریعہ ہی اپنا چہرہ چھپا لے وگرنہ نہيں ۔

عبداللہ بن عمررضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہيں کہ ایک شخص کھڑے ہوکر کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں آپ ہمیں کیا پہننے کا حکم دیتے ہيں ؟

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( تم نہ توقمیص پہنو اورنہ ہی سلوار اورپاجامے ، اورنہ ہی پگڑی باندھو اورنہ ٹوپی پہنو ، لیکن اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تووہ موزے ٹخنوں سے نیچے کاٹ کرپہن لے ، اورتم زعفران اور ورس لگی ہوئي کوئي چيز نہ پہنو ، اوراحرام والی عورت نقاب نہ کرے اورنہ ہی دستانے پہنے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1468 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1177 ) ۔

2 - اوراجنبی اورغیرمحرم مردوں کے ڈر سے نقاب کے علاوہ کوئي کپڑا وغیرہ لٹکا کرچہرہ چھپانے کے جواز کے بارہ میں کئی ایک صحابیات سے ثابت ہے کہ وہ ایسا کیا کرتی تھیں :

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلیں توہم احرام کی حالت میں تھیں ، جب ہم سے کوئي قافلہ ملتا توہم اپنے چہرے پرکپڑا لٹکا لیا کرتی تھیں ۔ سنن ابوداود حدیث نمبر ( 1833 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2935 ) ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہيں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وارد نہيں کہ آپ نے احرام والی عورت پرچہرہ ڈھانپنا حرام کیا ہو ، بلکہ آپ نے اس پرصرف نقاب کرنا حرام کیا ہے کیونکہ چہرے کا لباس ہے ، اورنقاب اورچہرہ ڈھانپنے میں فرق ہے ، لھذا اس بنا پر اگراحرام والی عورت سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا توہم کہيں گے :

اس میں کوئي حرج نہيں لیکن افضل یہ ہے کہ جب اس کے ارد گرد غیرمحرم مرد نہ ہوں تووہ چہرہ ننگا رکھے ، اس کے لیے ان غیرمحرم مردوں سے چہرا چھپانا واجب ہے ۔ دیکھیں : الشرح الممتع ( 7 / 153 ) ۔

3 - جوکچھ آپ کے ساتھ حج میں گزرا اورجوصورت آپ نے ذکر کی ہے اس کی نسبت ہم یہ کہیں گے کہ جہالت کی بنا پرآپ کے معذور ہونے کی وجہ سے آپ کے ذمہ کچھ لازم نہيں آتا ، اوراحرام کی حالت میں جتنی بھی محظورات جہالت یا بھول کرکی جائيں اس پرکوئي گناہ نہيں ہوتا اورنہ ہی فدیہ لازم آتا ہے

یعلی بن امیۃ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ جعرانہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اس نے عمرے کا احرام باندھ رکھا اوراس کی داڑھی اورسر پرزرد رنگ کی خوشبو لگي ہوئي اوراس پرایک جبہ تھا وہ کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میں عمرے کا احرام باندھا ہے اوراس حالت میں ہوں جسے آپ دیکھ رہے ہيں :

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :

اپنے اوپرسے جبہ اتار دو اوریہ زرد رنگ ( کی خوشبو) دھو ڈالو ، اورجو کچھ تم اپنے حج میں کرنےوالے تھے وہی اپنے عمرہ میں کرو ۔ دیکھیں : صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1697 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 1180 ) ۔

اورشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

اورنسیان وبھول کی طرح ہی جہالت اوراکراہ یعنی جبر بھی ہے : یعنی اگرکسی انسان نے احرام کی حالت میں بھول کرکپڑے پہن لیے تواس پرکچھ لازم نہیں آتا ، لیکن صرف اتنا ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے تووہ فورا کپڑے اتارے اوراوپرنیچے دوچادریں پہن لے ۔

اوراسی طرح خوشبوبھی ہے کہ اگراس نے بھول کراحرام کی حالت میں خوشبواستعمال کرلی تواس پرکچھ بھی لازم نہيں آتا ،لیکن یہ ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے وہ اسے دھونے میں جلدی کرے ۔

دیکھیں : الشرح الممتع لابن ‏عثیمین ( 7 / 222 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب