منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اسلام ميں حج كا مقام اور حج فرض ہونے كى شرائط

سوال

اسلام ميں حج كا مقام كيا ہے ؟
اور حج كس پر فرض ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيت اللہ كا حج اركان اسلام ميں سے ايك ركن اور اسلام كى عظيم بنيادوں ميں سے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اور يقينا محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور نماز كى پابندى كرنا، اور زكاۃ ادا كرنا، اور رمضان المبارك كے روزے ركھنا، اور بيت اللہ كا حج كرنا "

بيت اللہ كا حج كتاب و سنت كے دلائل اور اجماع مسلمين كے اعتبار سے فرض ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور لوگوں پر اللہ تعالى كے ليے بيت اللہ كا حج كرنا فرض ہے، جو اس كى طاقت ركھے، اور جو كوئى كفر كرے اللہ تعالى جہان والوں سے بے پرواہ ہے آل عمران ( 97 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ تعالى نے تم پر حج فرض كيا ہے اس ليے تم حج كرو "

اور مسلمانوں كا اس كى فرضيت پر اجماع ہے، اور يہ دين ميں ضرورى معلوم ہونے والى اشياء ميں سے اس ليے جو كوئى بھى اس كى فرضيت كا انكار كرے اور وہ مسلمانوں كے مابين رہائش پذير ہو تو وہ كافر ہو گا، ليكن اگر كوئ شخص سستى و كاہلى كے ساتھ اسے ترك كرتا ہے تو وہ بھى عظيم خطرہ سے دوچار ہونے والا ہے.

كيونكہ بعض علماء كرام كا كہنا ہے:

وہ كفر كا مرتكب ہو گا، يہ قول امام احمد كى ايك روايت ہے، ليكن راجح يہى ہے كہ نماز كے علاوہ كوئى اور عمل ترك كرنے والا كافر نہيں ہو گا تابعين ميں سے عبد اللہ بن شقيق رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام نماز كے علاوہ كسى اور عمل كو ترك كرنا كفر نہيں سمجھتے تھے )

اس ليے جو كوئى بھى حج كرنے ميں سستى اور كاہلى كا مظاہرہ كرے حتى كہ اسے موت آجائے تو وہ راجح قول كے مطابق كافر نہيں، ليكن يہ بہت بڑے اور خطرناك معاملہ ميں ہے.

اس ليے مسلمان شخص كو اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے جب حج كى شروط پورى ہو جائيں تو فورى اور جتنى جلدى ہو سكے حج كر لينا چاہيے كيونكہ جتنى بھى فرض اشياء ہيں وہ فورى طور پر سرانجام دينى چاہيں ليكن اگر اس كى تاخير ميں كوئى دليل ہو تو كوئى حرج نہيں.

ايك مسلمان شخص اس پر كيسے راضى ہو سكتا ہے كہ استطاعت كے باوجود وہ بيت اللہ كا حج نہ كرے اور وہاں تك آسانى سے پہنچنے كى سہولت ہونے كے باوجود ترك كردے؟ !

اور وہ اس ميں تاخير كيسے كر رہا ہے حالانكہ اسے علم ہى نہيں كہ ہو سكتا ہے اس سال كے بعد آئندہ برس وہ وہاں نہ پہنچ سكے؟ !

ہو سكتا ہے قدرت اور طاقت ہونے كے بعد وہ اس سے عاجز ہو جائے، اور مالدار ہونے كے بعد وہ فقر اور تنگ دستى كا شكار ہو جائے، اور ہو سكتا ہے آئندہ برس اسے موت آ جائے اور وہ حج كے وقت زندہ ہى نہ ہو حالانكہ اس پر حج فرض ہو چكا تھا، اور پھر وہ اپنے ورثاء كو حج كى قضاء سونپ كر چلتا بنے.

حج فرض ہونے كى شروط:

فرضيت حج كى پانچ شرطيں ہيں:

پہلى شرط: اسلام

اس كى ضد كفر ہے اس ليے كافر پر حج فرض نہيں، بلكہ اگر كافر حج كرے بھى تو اس كا حج قبول نہيں ہو گا.

دوسرى شرط: بلوغت:

اس ليے نابالغ بچے اور بچى پر حج فرض نہيں، اور اگر بچے نے بلوغت سے قبل حج كر بھى ليا تو اس كا حج صحيح ہے اور يہ نفلى حج ہو گا اس كا اجروثواب بھى اسے حاصل ہو گا، ليكن بالغ ہونے كے بعد اسے فرضى حج كى ادائيگى كرنا ہو گى، كيونكہ بلوغت سے قبل حج كرنے سے فرضى حج ادا نہيں ہوتا.

تيسرى شرط: عقل

اس كا ضد جنون اور پاگل پن ہے، اس ليے مجنون پر حج فرض نہيں، اور نہ ہى اس كى جانب سے حج كيا جائے گا.

چوتھى شرط: آزادى

اس ليے غلام پر حج فرض نہيں، اور اگر وہ حج كرے تو اس كا حج صحيح ہے اور يہ نفلى حج ہو گا، اور جب وہ آزاد ہو جائے تو اس پر حج فرض ہے استطاعت كے بعد اس كى ادائيگى كرے گا، كيونكہ آزاد ہونے سے قبل حج كى ادائيگى سے فرضى حج ادا نہيں ہوتا.

بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ:

جب غلام اپنے مالك كى اجازت سے حج كرے تو يہ فرضى حج سے كفائت كر جائے گا، اور راجح قول بھى يہى ہے.

پانچويں شرط: مالى اور بدنى استطاعت

عورت كے ليے محرم كا ہونا استطاعت ميں شامل ہے، اگر اس كا محرم نہيں تو اس پر حج فرض نہيں ہو گا " انتہى .

ماخذ: ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين رحمہ اللہ ( 21 / 9 - 11 )