منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

غصہ كى حالت ميں طلاق كا حكم

سوال

ايك مسلمان خاتون كے خاوند نے غصہ كى حالت ميں كئى بار " تجھے طلاق " كے الفاظ كہے ہيں، اس كا حكم كيا ہے خاص كر ان كے بچے بھى ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر كسي شخص كو اس كى بيوى اس كے ساتھ برا سلوك كرے اور اسے گالياں دے، اور غصہ كى حالت ميں بيوى كو طلاق دے دے تو اس كا حكم كيا ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" اگر تو مذكورہ طلاق شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں ہوئى ہے، اور بيوى كى بدكلامى اور گاليوں كى بنا آپ اپنے آپ پر كنٹرول نہ ركھتے تھے اور اپنے اعصاب كے مالك نہ تھے، اور آپ نے شدت غضب اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں طلاق دى اور بيوى بھى اس كا اعتراف كرتى ہے، يا پھر عادل قسم كے گواہ ہيں جو اس كى گواہى ديتے ہوں تو پھر طلاق واقع نہيں ہوئى.

كيونكہ شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شدت غضب ـ اور اگر اس ميں شعور اور احساس بھى جاتا رہے ـ ميں طلاق نہيں ہوتى.

ان دلائل ميں مسند احمد اور ابو داود اور ابن ماجہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اغلاق كى حالت ميں نہ تو غلام آزاد ہوتا ہے اور نہ ہى طلاق ہوتى ہے "

اہل علم كى ايك جماعت نے " اغلاق " كا معنى يہ كيا ہے كہ اس سے مراد اكراہ يعنى جبر يا غصہ ہے؛ يعنى شديد غصہ، جسے شديد غصہ آيا ہو اس كا غصہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول نہيں كرنے ديتا، اس ليے شديد غصہ كى بنا پر يہ پاگل و مجنون اور نشہ كى حالت والے شخص كے مشابہ ہوا، اس ليے اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.

اور اگر اس ميں شعور و احساس جاتا رہے، اور جو كچھ كر رہا ہے شدت غضب كى وجہ سے اس پر كنٹرول ختم ہو جائے تو طلاق واقع نہيں ہوتى.

غصہ والے شخص كى تين حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

جس ميں احساس و شعور جاتا رہے، اسے مجنون و پاگل كے ساتھ ملحق كيا جائيگا، اور سب اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.

دوسرى حالت:

اگرچہ شديد غصہ ہو ليكن اس كا شعور اور احساس نہ جائے بلكہ اسے اپنے آپ پر كنٹرول ہو اور عقل ركھتا ہو، ليكن غصہ اتنا شديد ہو كہ اس غصہ كى بنا پر اسے طلاق دينے پر مجبور ہونا پڑے، صحيح قول كے مطابق اس شخص كى بھى طلاق واقع نہيں ہوگى.

تيسرى حالت:

عام قسم كا غصہ ہو اور بہت شديد اور زيادہ نہ ہو، بلكہ عام سب لوگوں كى طرح غصہ ہو تو يہ ملجئ نہيں كہلاتا اور اس قسم كى سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جائيگى " انتہى

ديكھيں: فتاوى الطلاق جمع و ترتيب ڈاكٹر عبد اللہ الطيار اور محمد الموسى صفحہ ( 19 - 21 ).

شيخ رحمہ اللہ نے دوسرى حالت ميں جو ذكر كيا ہے شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے شاگرد ابن قيم رحمہ اللہ كا بھى يہى اختيار ہے، اور پھر ابن قيم رحمہ اللہ نے اس سلسلہ ميں ايك كتابچہ بھى تاليف كيا ہے جس كا نام " اغاثۃ اللھفان في حكم طلاق الغضبان " ركھا ہے، اس ميں درج ہے:

غصہ كى تين قسميں ہيں:

پہلى قسم:

انسان كو غصہ كى مباديات اور ابتدائى قسم آئے يعنى اس كى عقل و شعور اور احساس ميں تبديلى نہ ہو، اور جو كچھ كہہ رہا ہے يا كر رہا ہے اس كاادراك ركھتا ہو تو اس شخص كى طلاق واقع ہونے ميں كوئى اشكال نہيں ہے، اور اس كے سب معاہدے وغيرہ صحيح ہونگے.

دوسرى قسم:

غصہ اپنى انتہائى حد كو پہنچ جائے كہ اس كا علم اور ارادہ ہى كھو جائے اور اسے پتہ ہى نہ چلے كہ وہ كيا كر رہا ہے اور كيا كہہ رہا ہے، اور وہ كيا ارادہ ركھتا ہے، تو اس شخص كى طلاق نہ ہونے ميں كوئى اختلاف نہيں.

چنانچہ جب اس كا غصہ شديد ہو جائے چاہے وہ علم بھى ركھتا ہو كہ وہ كيا كہہ رہا ہے تو اس حالت ميں بلاشك و شبہ اس كے قول كو نافذ نہيں كيا جائيگا، كيونكہ مكلف كے اقوال تو اس صورت ميں نافذ ہوتے ہيں جب قائل كى جانب سے صادر ہونے اور اس كے معانى كا علم ركھتا ہو، اور كلام كا ارادہ ركھتا ہو.

تيسرى قسم:

ان دو مرتبوں كے درميان جس كا غصہ ہو، يعنى مباديات سے زيادہ ہو ليكن آخرى حدود كو نہ چھوئے كہ وہ پاگل و مجنون كى طرح ہو جائے، تو اس ميں اختلاف پايا جاتا ہے.

شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ اس كى طلاق اور آزاد كرنا اور معاہدے جن ميں اختيار اور رضامندى شامل ہوتى ہے نافذ نہيں ہونگے، اور يہ اغلاق كى ايك قسم ہے جيسا كہ علماء نے شرح كى ہے " انتہى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ

منقول از: مطالب اولى النھى ( 5 / 323 ) اور زاد المعاد ( 5 / 215 ) ميں بھى اس جيسا ہى لكھا ہے.

خاوند كو چاہيے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اللہ سے ڈرے اور طلاق كے الفاظ استعمال كرنے سے اجتناب كرے، تا كہ اس كے گھر كى تباہى نہ ہو اور خاندان بكھر نہ جائے.

اسى طرح ہم خاوند اور بيوى دونوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے حدود اللہ كا نفاذ كريں اور يہ ہونا چاہيے كہ كوئى ايسى نظر ہو جو ديكھے كہ خاوند كى جانب سے بيوى كے معاملہ ميں جو كچھ ہوا ہے كيا وہ عام غصہ كى حالت ميں ہوا ہے يعنى تيسرى قسم ميں جس ميں سب علماء كے ہاں طلاق واقع ہو جاتى ہے.

اور انہيں اپنے دينى معاملہ ميں احتياط سے كام لينا چاہيے اور يہ مت ديكھيں كہ دونوں كى اولاد ہے، جس كى بنا پر يہ تصور كر ليا جائے كہ جو كچھ ہوا وہ غصہ كى حالت ميں ہوا اور فتوى دينے والے كو اس كے وقوع پر آمادہ كر دے ـ حالانكہ دونوں يعنى خاوند اور بيوى كو علم تھا كہ يہ اس سے كم درجہ ركھتا تھا ـ.

اس بنا پر اولاد كا ہونا خاوند اور بيوى كو طلاق جيسے الفاظ ادا كرنے ميں مانع ہونا چاہيے، يہ نہيں كہ اولاد ہونے كى وجہ سے وہ شرعى حكم كے بارہ ميں حيلہ بازي كرنا شروع كر ديں اور طلاق واقع ہو جانے كے بعد اس سے كوئى مخرج اور خلاصى و چھٹكارا حاصل كرنے كى كوشش كريں، اور فقھاء كرام كى رخصت كو آلہ بنا ليں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہم سب كو دين كے شعائر اور قوانين ميں بصيرت سے نوازے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب