منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

خاونداپنی بیوی کوفقہی مناقشات کے وقت دھمکیاں دیتا ہے

4601

تاریخ اشاعت : 23-01-2005

مشاہدات : 7986

سوال

جب کسی مسئلہ میں علماء کرام کی دو رائے ہوں توبیوی دینی امور میں خاوند سے جھگڑا کرتی ہے ، ایسا کرنا خاوند کے لیے بہت تکلیف دہ ہے ، ہوسکتا ہے معاملہ طلاق تک جا پہنچے ۔
بیوی خاوند سے کہتی ہے کہ ميں آپ سے مجادلہ کرسکتی ہوں اس لیے کہ امہات المومنین بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مجادلہ کرتی تھیں ، وہ ہمیشہ یہ چاہتی ہے کہ وہ سب سے آگے ہو ، اوراس کے ساتھ ساتھ وہ احترام بھی کم کرتی ہے اوربے ادبی کا عنصر پایا جاتا ہے ۔
دونوں اورخاص کر بیوی کو آپ کیا نصیحت کرتے ہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

میری ان دونوں خاوند اوربیوی کونصیحت یہ ہے کہ : بلاشبہ وہ دونوں مخلوق ہیں ان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کی شریعت کے سامنے سرخم تسلیم کریں ، کیونکہ دنیا وآخرت کی سعادت بھی اسی میں ہے ۔

اورپھراللہ تعالی کا بھی فرمان ہے :

اوران عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھے انداز کے ساتھ

تواس لیے خاوند اوربیوی دونوں پر واجب ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن معاشرت کریں ، اورپھر شادی تو ایک ایسی چيز ہے جومحبت ومودت اورالفت پر قائم ہے نا کہ چیلنج پر کیونکہ چیلنج تو دشمنوں کے مابین ہوتا ہے ، اوراگریہ چيز دوست واحباب کے مابین پیدا ہوجائے توپھریہ بھی دشمنی اختیار کرجاتا ہے جس میں ان دونوں کی کوئي بھلائی اورخیر نہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اوراس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تہمارے لیے تم میں سے ہی بیویاں پیدا کی ہیں تا کہ تم ان سے سکون وراحت حاصل کرو اورتمہارے درمیان محبت ومودت اوررحمدلی و رحمت پیدا کردی ہے ۔

تواس لیے خاوند کے لیے ضروری ہے کہ وبیوی کے ساتھ احسن انداز میں مجادلہ اورگفتگو کرے ، اوراسے مطمئن کرنے کا طریقہ استعمال کرے نہ کہ اس پررائے فرض کرنے اور ٹھونسنے کا طریقہ ، اوراسے بھی گفتگو کرنے کا موقع اورفرصت دے کہ وہ ادب و احترام کے ساتھ گفتگو کرے ۔

اسے یہ بھی علم ہونا چاہیےکہ کسی فقھی رائے کوبیوی کے خاص مسئلہ میں اس پر فرض کرنا اورٹھونسنا صحیح نہیں جس کا خود اس کی ذات سے تعلق نہيں بلکہ وہ بیوی سے متعلقہ ہے اوروہ کسی اورعالم کی رائے سے متفق ہے تووہ اگرقرآن وسنت کے دلائل کے مطابق ہو تواسے وہ تسلیم کرے ۔

اوراس بیوی کویہ علم ہونا چاہیے کہ خاوند کا بہت عظیم حق ہے اوراس کی اطاعت واجب ہے اوراچھے طریقہ سے اسے راضي رکھنا اللہ تعالی کی رضا ہے ۔

عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جب عورت اپنی پانچ نمازیں ادا کرے اوراپنے رمضان کے روزے رکھے ، اوراپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے ، اوراپنے خاوند کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا کہ جنت کے کسی بھی دروازے سے داخل ہوجاؤ ) مسند احمد حدیث نمبر ( 1573 ) صحیح الجامع حدیث نمبر( 660 ) ۔

اورایک اورروایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اگرمیں کسی کو اللہ تعالی کے علاوہ کسی اورکے لیے سجدہ کرنے کاحکم دیتا توعورت کوحکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کوسجدہ کرے ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے جب تک عورت اپنے خاوند کے حق ادا نہیں کرتی وہ اس وقت تک اپنے رب کے حقوق بھی ادا نہیں کرسکتی ، اوراگرخاوند اس سے اس کا نفس مانگے اوروہ کجاوہ پر ہو تو اسے نہیں روکنا چاہیے ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1843 ) ۔

حدیث میں ( ولوسالھا ) یعنی اگراس کا خاوند اسے سے ( نفسھا ) یعنی جماع اور ہم بستری کا مطالبہ کرے ( علی قتب ) اونٹ پر سوار ہونے کا کجاوہ یا کاٹھی ۔

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اس میں بیوی کوخاوند کی اطاعت پر ابھارا گيا ہے اگرچہ وہ اس حالت میں بھی ہو توپھر بھی خاوند کی اطاعت کرے توپھر دوسرے حالات میں کس طرح کی اطاعت ہونی چاہیے ۔ سنن ابن ماجہ ( 1843 ) اوردیکھیں صحیح الجامع حدیث نمبر ( 5239 ) اور( 5295 ) ۔

اورایک روایت میں ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( انسان کے لیے کسی بھی انسان کو سجدہ کرنا صحیح نہیں ، اوراگرانسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنا صحیح ہوتا تو میں عورت کوحکم دیتا کہ وہ اپنےخاوند کوسجدہ کرتی اس لیے کہ اس کا عورت پر بہت ‏عظیم حق ہے ، اوراس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر اس کے پاؤں سے لیکر اس کے سرتک زخم پیپ سےبھرے ہوں اورپیپ رس رہی تووہ بیوی اس کے پاس آئے اوراسے چاٹ لے پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کیا ) مسند احمد حدیث نمبر ( 12153 ) صحیح الجامع حدیث نمبر ( 7725 ) ۔

بیوی جب اللہ تعالی رضا اورخوشنودی کےلیے اپنے خاوند کی اطاعت کرتی اوراس سے حسن معاشرت کرتی ہے تواسے اللہ تعالی سے اجرعظیم حاصل ہوتا ہے ، اوراسی طرح مرد پر بھی ضروری ہے واجب ہے کہ وہ بیوی کے معاملہ میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کرے اوراس سے حسن اخلاق کے ساتھ پیش آئے اوراسے شرعی حقوق سکھائے ۔

اورآپ کی بیوی کا یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زيادہ گفتگو کرتی اوردرپے رہتی تھیں یہ بات بالکل صحیح نہیں ، وہ تو ایسی باتوں سے بہت ہی اعلی ہیں ۔

انہوں نے تو نفقہ کا مطالبہ کیا تھا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان کے مطالبہ کے وقت کچھ نہیں تھا اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ تواللہ تعالی کے دیے ہوئے کے مطابق حسب قدرت ہی نفقہ تھا کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

کشادگي والے کواپنی کشادگي سے خرچ کرنا چاہیے اورجس پر اس کی روزی تنگ کردی جائے وہ اللہ تعالی کے دیے ہوئے میں سے خرچ کرے ۔

تواس آيت میں ہے کہ جس پراس کی روزی تنگ ہو وہ حسب استطاعت خرچ کرے ، پھر ازواج مطہرات نے اس کے بعد کبھی بھی یہ مطالبہ نہیں دھرایا ۔

اورایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی ایک بیوی کے پاس گئے توانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوشہد پلایا ، تودو بیویوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کے پاس زياد دیر ررہنے پر غیرت محسوس کی اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کےپاس صرف شہد پینے کے لیے رک گئے تھے ۔

تواس وجہ سے ان دونوں نے حیلہ کیا کہ ہر ایک نے یہی کہا کہ ان سے آج کوئي اچھی خوشبونہیں آرہی ، اورکہنے لگیں کہ شہد کی مکھی نے کسی بدبودار درخت سے رس چوسا ہے ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدبوسے بہت زيادہ نفرت تھی اوریہ ناپسند فرماتے تھے کہ آپ سے کوئي اچھی خوشبو نہ آتی ہو تواللہ تعالی نے ازواج مطہرات کوڈانٹتے ہوئے فرمایا :

اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیویو ) اگر تم دونوں اللہ تعالی کے سامنے توبہ کرلو ( تو بہتر ہے ) یقینا تمہارے دل جھک گئے ہیں ، اوراگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تویقینا اس کا کارساز اورمولی اللہ تعالی ہے اورجبریل ہیں ، اورنیک اہل ایمان اوران کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں التحریم ( 4 )

تودونوں ازواج مطہرات رضي اللہ تعالی عہنما اس کی طرف دوبارہ پلٹی بھی نہیں ۔

امہات المومنین رضي اللہ تعالی عنہن کی حسنات اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسن معاشرت سے علم نہیں کہ یہ بیوی کس طرح غافل رہی ہے حالانکہ یہ سب اشیاء توازواج مطہرات کی معروف ومشہور ہیں ، اس میں تو اس نے ان کی اقتدا اورپیروی نہیں کی بلکہ ان کی بعض ان غلطیوں سے دلیل پکڑنے کی کوشش کر رہی ہے جس کی اللہ تعالی نے اصلاح بھی کردی اوربعد میں انہوں نے کبھی بھی ایسا نہیں کیا ۔

اللہ تعالی آپ دونوں کو اپنے محبوب اوررضامندی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آّپ کے مابین اتفاق واتحاد پیدا کرے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد