جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

بيس برس كى عمر تك پہنچنے كے باوجود ختنہ نہيں كرايا

46849

تاریخ اشاعت : 05-05-2007

مشاہدات : 5717

سوال

ميں بيس برس كا نوجوان ہوں بچپن ميں ميرا آپريشن ہوا جس كى وجہ سے ميرا ختنہ نہ كرايا گيا، اس كے بعد ميں ہاسپٹل گيا تو ڈاكٹر مجھے كہنے لگا كہ عضو تناسل والى جگہ پر ہى پيدائشى عيب ہے پہلے اس كا آپريشن كيا جائيگا اور پھر بعد ميں ختنہ ہوگا، اب اسے بھى كئى برس گزر چكے ہيں اور ميں نے ابتدائى آپريشن ابھى تك نہيں كرايا جس كى بنا پر ميرا ختنہ بھى نہيں كيا گيا، اور اب صورت حال يہ ہے كہ ميرى عمر بيس برس ہو چكى ہے اور ميں اسى حالت ميں ہى زندگى بسر كر رہا ہوں، اور مسجد ميں نماز بھى ادا كرتا ہوں، اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اكثر اہل علم كے ہاں مرد كا ختنہ كرنا واجب ہے، اور يہ فطرتى سنت بھى ہے، جيسا كہ حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" پانچ اشياء فطرتى ہيں: ختنہ كرانا، اور زيرناف بال مونڈنا، اور مونچھيں كاٹنا، اور ناخن تراشنا، اور بغلوں كے بال اكھيڑنا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5441 ) صحيح مسلم حديث نمبر(377)

اور بخارى و مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ابراہيم عليہ السلام نے اسى برس كى عمر ميں ختنہ كرايا "

صحيح بخارى حديث نمبر( 3107) صحيح مسلم حديث نمبر(4368)

ليكن فقھاء نے صراحت كى ہے كہ اگر بڑى عمر كے شخص كو ختنہ كرانے كى بنا پر اپنى جان كا خطرہ ہو تو اس سے ختنہ ساقط ہو جائيگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ اپنى كتاب " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:

فصل: رہا ختنہ تو يہ مردوں كے ليے واجب ہے، اور عورتوں كے ليے ختنہ كرانا باعث عزت و تكريم ہے ليكن ان پر واجب نہيں، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے.

امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

مرد كا ( ختنہ كرنا ) زيادہ شديد ہے، اس ليے كہ جب مرد كا ختنہ نہ كيا جائے تو عضو تناسل پر چمڑى لٹكى رہتى ہے، اور اس كے نيچے صفائى نہيں ہوتى، ليكن عورت كا معاملہ اتنا شديد نہيں بلكہ آسان ہے، ابو عبد اللہ كہتے ہيں: ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ مرد كے معاملہ ميں سختى كرتے تھے، اور ان سے مروى ہے كہ ختنہ نہ كرانے والے شخص كا نہ تو حج ہے اور نہ ہى نماز.

اور حسن اس ميں رخصت ديتے ہوئے كہتے ہيں: جب مرد اسلام قبول كر كے تو پھر كوئى پرواہ نہيں كہ وہ ختنہ نہ كرائے، اور ان كا كہنا ہے: سفيد و سياہ لوگ اسلام لائے ليكن ان ميں سے كسى ايك كى تفتيش نہ كى گئى اور انہوں نے ختنہ نہ كرايا.

ختنہ كرانے كے وجوب كى دليل يہ ہے كہ: سترپوشى واجب اور فرض ہے، اور اگر ختنہ كرانا واجب اور فرض نہ ہوتا تو پھر ختنہ كرنے كى بنا پر مختون شخص كى شرمگاہ كو ديكھ كر اس حرمت كو پامال كرنا جائز نہ تھا اور اس ليے بھى كہ يہ مسلمانوں كا شعار اور ان كى علامت ہے، اس ليے يہ واجب ہے، تو يہ بھى ان كے باقى شعار كى طرح ايك شعار ہوا.

اگر كوئى بڑى عمر كا شخص اسلام قبول كرے اور اس كا ختنہ كرنے سے اس كى جان كو خطرہ محسوس ہو تو ختنہ اس سے ساقط ہو جائيگا، كيونكہ غسل اور وضوء وغيرہ بھى جان كو خوف ہونے كى شكل ميں ساقط ہو جاتا ہے، تو اس كا ساقط ہونا زيادہ اولى ہے، اور اگر اسے اپنى جان كا امن ہو تو اسے ختنہ كرانا لازم ہے.

حنبل رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ميں نے ابو عبداللہ سے دريافت كيا كہ اگر ذمى شخص مسلمان ہو تو آپ كى رائے كيا ہے كہ آيا وہ ختنہ كرا كر پاك ہو گا يا نہيں ؟

تو ان كا جواب تھا:

اس كے ليے ايسا كرنا ضرورى ہے.

ميں نے كہا: اگر وہ بڑى عمر كا مرد يا بڑى عمر كى عورت ہو تو پھر؟

ان كا جواب تھا: مجھے تو يہى پسند ہے كہ وہ پاكى اختيار كرے، كيونكہ حديث ميں ہے " ابراہيم عليہ السلام نے اسى برس كى عمر ميں ختنہ كرايا تھا " اور اللہ تعالى كا فرمان ہے:

تمہارے باپ ابراہيم عليہ السلام كى ملت اور دين . الحج ( 78 ). انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 1 / 101 ).

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" ختنہ كرانا فطرتى سنت ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ مرد و عورت دونوں كے ليے ہے، ليكن مردوں كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، اور عورتوں كے حق ميں سنت اور باعث عزت و تكريم ہے " اھـ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 113 ).

اور اب تو ميڈيكل اور طب اتنى ترقى كر چكى ہے جس كى بنا پر ختنہ كرانا تو بالكل ہى مشكل نہيں رہا اور اس ميں كوئى خطرہ تك نہيں رہا بلكہ يہ پرامن ہے، اس ليے آپ واجب كى ادائيگى كے ليے ختنہ جلدى كرائيں، اور پھر ايسا كرنے ميں انبياء عليہم السلام كى اقتداء و پيروى بھى ہے، اور فطرت كى حفاظت بھى، اور اس كے ساتھ ساتھ عبادت كے ليے احتياط بھى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب