جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

زيادہ اور اچھى فصل اور پھل حاصل كرنے كے ليے ہارمونات استعمال كرنا

48970

تاریخ اشاعت : 21-06-2010

مشاہدات : 4980

سوال

بعض كسان ايسے ہارمون استعمال كرتے ہيں جو پھل كا حجم زيادہ اور بہتر كرتے ہيں، ليكن اس ہارمون ميں انسان كے ليے ضرر اور نقصان پايا جاتا ہے، اور پھر محكمہ زراعت كى جانب سے بھى اس كے استعمال ميں پابندى ہے چنانچہ ايسا كرنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ عمل حرام ہے؛ كيونكہ اس ميں مسلمانوں كے ليے دھوكہ اور فراڈ ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے دھوكہ اور فراڈ كيا تو وہ ہم ميں سے نہيں "

اور پھر اس عمل ميں مسسلمانوں كے ليے نقصان اور ضرر بھى پايا جاتا ہے، اس ليے جس شخص نے مسلمان كو نقصان اور ضرر ديا اللہ تعالى بھى اسے نقصان اور ضرر ديگا، اور ايسا عمل كرنے والا گنہگار ہے، اور اس كى كمائى اور آمدنى حرام ہے، بلكہ اس لائق ہے كہ اسے اس دھوكہ اور فراڈ كى سزا دى جائے.

اس ليے جس شخص كو اس طرح كى فصل اور پھل وغيرہ كا علم ہو تو اس كے ليے اسے ماركيٹ ميں لانا اور اس كى ترويج كرنا اور اس كى تجارت كرنا جائز نہيں، كيونكہ ايسا كرنے ميں گناہ و ظلم و زيادتى پر معاونت ہے اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور گناہ و برائى اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو، يقينا اللہ تعالى بڑى سخت سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).

اس ليے مسلمان كسانوں وغيرہ كو اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرنا چاہيے، اور وہ نيكى و بھلائى اور خير ميں ايك دوسرے كى معاونت كرنے والے بنيں، اور گناہ و ظلم و زيادتى والےاسباب سے بھى دور رہيں، اور حلال اور اچھا رزق كمائى تلاش كرتے ہوئے حرام آمدنى سے اجتناب كريں، اور دنيا و كى چمك اور دنيا كے مال كے دھوكہ ميں مت آئيں كہ كسى بھى طريقہ سے مال جمع ہو چاہے حلال ہو يا حرام.

كيونكہ قليل اور كم حلال مال بہت سارے حرام مال سے بہتر ہے، مسلمان افراد كو چاہيے كہ اگر كوئى شخص بھى ايسا كرتا ہے تو محكمہ كے ذمہ داران كو اس كى اطلاع ديں تا كہ اس كى پكڑ ہو سكے؛ اس ليے كہ يہ برائى ہے جس كو روكنا ضرورى ہے، اور مسلمان ايك دوسرے كو حق اور امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كى تلقين كرتے رہيں، اور اپنے بھائيوں كو نصيحت كرنے كى كوشش اور جدوجھد كرتے رہيں " اھـ

فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء.

ماخذ: ماخوذ از: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 61 / 100 )