ہفتہ 1 جمادی اولی 1446 - 2 نومبر 2024
اردو

كيا نصف شعبان كى رات اللہ تعالى آسمان دنيا پر نزول فرماتا ہے ؟

سوال

كيا اللہ سبحانہ وتعالى نصف شعبان كى رات آسمان دنيا پر نازل ہو كر كافر اور كينہ اور بغض ركھنے والے كے علاوہ باقى سب كو بخش ديتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ ايك حديث ميں ہے، ليكن اس حديث كى صحت ميں اہل علم نے كلام كى ہے، اور نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى حديث صحيح نہيں ملتى.

اور موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى نصف شعبان كى رات جھانك كر مشرك اور كينہ و بغض والے كے علاوہ باقى سب كو بخش ديتا ہے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1390 ).

مشاحن: اس شخص كو كہتے ہيں جو اپنے سے دشمنى ركھے.

" الزوائد" ميں ہے: عبد اللہ بن لھيعۃ كے ضعف اور وليد بن مسلم كى تدليس كى بنا پر يہ حديث ضعيف ہے.

اور اس حديث ميں اضطراب بھى جسے دار قطنى رحمہ اللہ نے " العلل ( 6 / 50 - 51 ) ميں بيان كيا ہے، اور اس كے متعلق كہا ہے: يہ حديث ثابت نہيں.

اور معاذ بن جبل، عائشہ اور ابو ھريرہ اور ابو ثعلبہ خشنى وغيرہ رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى حديث بيان كى گئى ہے، ليكن يہ طرق بھى ضعف سے خالى نہيں، بلكہ بعض تو شديد ضعف والے ہيں.

ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" نصف شعبان كى رات كے فضائل ميں متعدد احاديث ہيں، جن ميں اختلاف كيا گيا ہے، اكثر علماء نےتو انہيں ضعيف قرار ديا ہے، اور بعض احاديث كو ابن حبان نے صحيح قرار ديا ہے"

ديكھيں: لطائف المعارف ( 261 ).

اور پھر اللہ تعالى كا نزول نصف شعبان كى رات كے ساتھ خاص نہيں بلكہ بخارى اور مسلم كى حديث ميں ثابت ہے كہ اللہ تعالى ہر رات كے آخرى حصہ ميں آسمان دنيا پر نزول فرماتا ہے، اور نصف شعبان كى رات اس عموم ميں داخل ہے.

اسى ليے جب عبد اللہ بن مبارك رحمہ اللہ تعالى سے نصف شعبان كى رات ميں اللہ تعالى كے نزول كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے سائل كو كہا:

اے ضعيف صرف نصف شعبان كى رات! ؟ بلكہ اللہ تعالى كو ہر رات نزول فرماتا ہے "

اسے ابو عثمان الصابونى نے " اعتقاد اھل السنۃ ( 92 ) ميں روايت كيا ہے.

اور عقيلى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

نصف شعبان ميں اللہ تعالى كے نزول كے متعلق احاديث ميں لين ہے، اور ہر رات ميں اللہ تعالى كے نزول والى احاديث صحيح اور ثابت ہيں، اور ان شاء اللہ نصف شعبان كى رات بھى اس ميں داخل ہے.

ديكھيں: الضعفاء ( 3 / 29 ).

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 8907 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب