منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

پرانى مسجد كى چٹاياں كسى دوسرے مسجد ميں لے جانى جائز ہيں

سوال

ايك مسجد كى كميٹى نے مسجد ميں نيا كارپٹ بچھايا اور پرانا پھينك ديا، ميں نے ان كى اجازت سے وہ پرانا قالين اٹھا كر اس سكول ميں نماز كى ادائيگى والى جگہ ميں بچھا ديا جہاں ميں تعليم حاصل كررہا ہوں، كيا كيا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جى ہاں، ان شاء اللہ يہ جائز ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

مسجد كى چٹائى اور تيل ميں سے جو كچھ زيادہ ہو اور اس مسجد ميں اس كى ضرورت نہ ہو تو اسے دوسرى مسجد ميں ركھنا جائز ہے، يا اسے مسجد كے قريب ترين فقراء و مساكين ميں صدقہ كر دينا چاہيے...

امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا كہ ايك مسجد كى تعمير كى گئى تو اس كى بچنى والى لكڑى كسى دوسرى مسجد ميں استعمال كى جا سكتى ہے، او كما قال.

اور مروذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

ميں نے ابو عبد اللہ رحمہ اللہ تعالى سے مسجد كى بچ جانے والى چٹائيوں يا لكڑى كے متعلق دريافت كيا تو ان كا كہنا تھا:

اسے صدقہ كر ديا جائے.

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ ( 6 / 219- 220 ). كچھ اختصار اور كمى و بيشى كے ساتھ.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جى ہاں اگر كوئى بہترى اور اس ميں زيادہ اصلاح ہو تو ايك جگہ سے دوسرى جگہ منتقل كرنا جائز ہے، لہذا جب كسى مسجد كے قالين، يا المارياں، يا كوئى اور چيز زيادہ ہو باقى بچ رہے تو اگر ممكن ہو سكے تو اسى طرح بعينہ اس چيز كو دوسرى مسجد ميں منتقل كر ديا جائے، اور اگر ممكن نہ ہو تو ہم يہ اشياء فروخت كر كے اس كى قيمت مسجد پر صرف كر ديں گے.

ليكن اگر يہ مسجد اوقاف كى ہو تو پھر محكمہ اوقاف ہى اس ميں تصرف كرے گا، اور جس ميں زيادہ بہترى نظر آئے اس پرعمل كرے گا.

ماخوذ از: لقاء الباب المفتوح ( 3 / 248 ) واللہ تعالى اعلم

اور سكول ميں نماز كى ادائيگى كے مقرر كردہ جگہ اگرچہ وہ مسجد كا حكم تو نہيں ركھتى، ليكن كسى حد تك مسجد سے مشابہ تو ضرور ہے، لھذا وہاں قالين منتقل كرنے فقراء پر صدقہ كرنے سے زيادہ بہتر اور افضل ہيں.

واللہ تعالى اعلم

آپ مزيد معلومات كے ليے سوال نمبر ( 11247 ) اور ( 13720 ) كے جوابات ضرور ديكھيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب