ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

ايك لڑكى سے شادى كرنے كى نذر مانى اور پھر نذر پورى نہ كر سكا

50629

تاریخ اشاعت : 07-06-2013

مشاہدات : 3140

سوال

ميں نے اللہ تعالى كے ليے نذر مانى كہ ميں اس لڑكى كے علاوہ كسى اور سے شادى نہيں كرونگا، اور اگر اس كے علاوہ كسى اور سے شادى كى تو تين ماہ كے روزے ركھوں گا، اور پھر ميں يہ نذر پورى نہ كر سكا، اور نہ ہى ميرے پاس ہر روز فقراء كو دينے كے ليے رقم ہے، اس كا حل كيا ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسلمان كو نذر ماننے سے اجتناب كرنا چاہيے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نذر ماننے سے منع فرمايا ہے.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نذر ماننے سے منع كيا اور فرمايا:

" يہ كسى چيز كو واپس نہيں لاتى، بلكہ يہ تو بخيل سے نكالنے كا ايك بہانہ ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6608 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1639 )

مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 32724 ) اور ( 36800 ) كے جوابات كا ضرورى مطالعہ كريں.

دوم:

علماء رحمہم اللہ تعالى نے بيان كيا ہے كہ نذر كى كئى ايك قسميں ہيں: ان ميں ايك نذر تو يہ ہے جس سے قسم مراد لى جاتى ہے، اور وہ نذر يہ ہے كہ اس سے كسى فعل كو كرنے يا كسى چيز سے اجتناب كرنے پر ابھارنا مقصود ہوتا ہے.

اس نذر كو پورا نہ كيا جائے تو اس كا حكم يہ ہے كہ يا تو نذر مانى گئى چيز كو پورا كرے اور يا قسم كا كفارہ ادا كرے، يعنى دونوں ميں سے كوئى ايك اختيار كر سكتا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں كہتے ہيں:

" جب نذر قسم كے طور پر ہو، وہ اس طرح كہ اپنے آپ كو يا كسى دوسرے كو كسى چيز سے منع كرے، يا كسى چيز پر ابھارے: مثلا وہ يہ كہے كہ: اگر ميں نے زيد سے كلام كى تو مجھ پر اللہ كے ليے حج، يا مال كا صدقہ، يا ايك برس كے روزے، تو يہ قسم كے زمرے ميں آتا ہے.

اور اس كا حكم يہ ہے كہ اسے اختيار ہے كہ اس نے جس پر قسم كھائى ہے اسے پورا كرے تو اس كے ذمہ كچھ لازم نہيں آئے گا، اور يا پھر قسم توڑ دے اور جس كى نذر مانى ہے وہ كر لے، يا قسم كا كفارہ ادا كردے، اور اسے جھگڑالو اور غضب كى نذر كا نام ديا جاتا ہے، اور اس پر اس كا پورا كرنا متعين نہيں ہوتا..

يہ عمر، ابن عباس اور ابن عمر، عائشہ، حفصہ زينب بنت ابى سلمہ رضى اللہ تعالى عنہم كا قول ہے، اور امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كا بھى يہى كہنا ہے. اھـ مختصرا

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ المقدسى ( 13 / 461 ).

اور جو ظاہر ہوتا ہے وہ يہى ہے كہ آپ كى نذر يہ تھى كہ اگر اس لڑكى سے شادى نہ كى تو تين ماہ كے روزے ركھوں گا، يہ بھى اسى قسم كى نذر ہے كيونكہ آپ اس سے اپنے آپ كو اس لڑكى كے ساتھ شادى كرنے پر ابھار رہے تھے اور قسم كا معنى بھى يہى ہے.

آپ مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 45889 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور قسم كا كفارہ مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ميں مذكور ہے:

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى تمہارى قسموں ميں لغو قسم پر تمہارا مؤاخذہ نہيں كرتا، ليكن اس پر مؤاخذہ فرماتا ہے كہ تم جن قسموں كو مضبوط كردو، اس كا كفارہ دس محتاجوں كو كھانا دينا ہے اوسط درجے كا جو اپنے گھروالوں كو كھلاتے ہو يا ان كو لباس دينا، يا ايك غلام يا لونڈى آزاد كرنا، ہے، اور جو كوئى نہ پائے تو وہ تين دن كے روزے ركھے، يہ تمہارى قسموں كا كفارہ ہے جب كہ تم قسم كھا لو، اور اپنى قسموں كا خيال ركھو! اسى طرح اللہ تعالى تمہارے واسطے اپنے احكام بيان فرماتا ہے تا كہ تم شكر كرو المآئدۃ ( 89 ).

اس كى مزيد تفصيل جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 45676 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

جواب كا خلاصہ:

اگر آپ اس لڑكى سے شادى كرليں تو آپ پر كچھ لازم نہيں آتا، اور اگر نہ كريں تو پھر آپ كو اختيار ہے كہ اپنى نذر پورى كرتے ہوئے تين ماہ كے روزے ركھيں يا پھر قسم كا كفارہ ادا كر ديں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب