منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

رمضان كے روزے نہ ركھنے والے مسلمانوں كو كيسے دعوت دى جائے ؟

سوال

رمضان المبارك كے روزے نہ ركھنے والے مسلمانوں كو كيسے دعوت دى جائے؟
اور انہيں روزہ ركھنے كى دعوت دينے كا افضل اور بہتر طريقہ كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ان مسلمانوں كو روزہ ركھنے كى دعوت اور اس كى ترغيب دينى اور روزہ ركھنے ميں كوتاہى اور سستى كرنے سے ڈرانا واجب ہے، اور اس ميں مندرجہ ذيل وسائل كو بروئے كار لايا جائے:

1 - انہيں روزے كى فرضيت كا بتايا جائے، اور اسلام ميں روزے كى عظمت اور مرتبہ اور اہميت اس كے علم ميں لائى جائے، كيونكہ روزہ اسلام كے بنيادى اركان ميں سے ايك ركن ہے جس پر اسلام قائم ہے.

2 - انہيں روزہ كى فضيلت اور اجروثواب ياد دلايا جائے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے ايمان اور اجروثواب كى نيت سے روزہ ركھا اس كے پہلے تمام گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 38 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 760 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر ايمان لايا اور نماز ادا كى اور زكاۃ ديتا رہا اور رمضان المبارك كے روزہ ركھے اللہ تعالى پر حق ہے كہ اسے جنت ميں داخل كرے، وہ اللہ تعالى كى راہ ميں جھاد كرے يا اس زمين ميں جہاں پيدا ہوا بيٹھا رہے"

صحابہ كرام نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ہم لوگوں كو خوشخبرى نہ دے ديں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جنت ميں سو مرتبے ہيں جو اللہ تعالى نے اللہ كى راہ ميں جہاد كرنے والے مجاہدين كے ليے تيار كيے ہيں، دو درجوں اور مرتبوں كے درميان آسمان و زمين جتنا فاصلہ ہے، جب تم اللہ تعالى سے سوال كرو تو جنت الفردوس كا سوال كرو، كيونكہ وہ جنت كا درميان اور اونچا ترين درجہ ہے، اس كے اوپر رحمن كا عرش ہے، اور اس سے جنت كى نہريں جارى ہوتى ہيں"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7423 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ عزوجل كا فرمان ہے: روزہ ميرے ليے ہے اور ميں ہى اس كا اجر اور بدلہ دونگا، وہ اپنى شہوت اور كھانا پينا ميرى وجہ سے ترك كرتا ہے، اور روزہ ڈھال ہے، اور روزے دار كے ليے دو خوشياں ہيں، ايك خوشى تو اسے افطارى كے وقت حاصل ہوتى ہے، اور ايك خوشى جب وہ اپنے رب سے ملے گا، اور روزہ دار كے منہ كى سرانڈ اللہ تعالى كے ہاں كستورى سے بھى زيادہ خوشبودار ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7492 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1151).

3 - روزہ ترك كرنے سے انہيں ڈرانا، اور يہ بتانا كہ روزہ ترك كرنا كبيرہ گناہ ہے.

ابن خزيمہ اور ابن حبان نے ابو امامہ باہلى رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" ميں سويا ہوا تھا كہ ميرے پاس دو آدمى آئے اور ميرا بازو ( الضبع بازو كو كہتے ہيں ) پكڑ كر ايك دشوار گزار پہاڑ پر لا كر كہنے لگے: اس پر چڑھو، ميں نے كہا مجھ ميں طاقت نہيں، تو وہ دونوں كہنے لگے: ہم آپ كے ليے آسانى پيدا كردينگے، تو ميں پہاڑ پر چڑھ گيا اور جب پر پہنچا تو وہاں بہت شديد آوازيں تھيں، ميں نے كہا: يہ آوازيں كيسى ہيں ؟

وہ كہنے لگے: يہ جہنميوں كى چيخ و پكار ہے، پھر وہ مجھے لے كر چلے تو ميں ايسى قوم كے پاس پہنچا جنہيں كونچوں كے بل لٹكايا گيا تھا ان كى باچھيں كٹى ہوئى تھيں، اور ان سے خون بہہ رہا ہے، ميں كہنے لگا: يہ لوگ كون ہيں ؟

انہوں نے جواب ديا: يہ وہ لوگ ہيں جو وقت سے قبل ہى افطارى كر ليتے تھے"

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح موارد الظمآن حديث نمبر( 1509 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس پر تعليق كرتے ہوئے كہا ہے:

" ميں كہتا ہوں يہ اس كى سزا ہے جس نے روزہ ركھنے كے بعد افطارى سے قبل جان بوجھ كر روزہ كھول ديا، تو پھر وہ شخص جو اصلا بالكل روزہ ركھتا ہى نہيں اس كى حالت كيا ہو گى؟ !

اللہ تعالى سے ہم دنيا و آخرت ميں سلامتى و عافيت كے طلبگار ہيں، مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 38747 ) كا جواب ضرور ديكھيں.

4 - روزہ كى آسانى اور سہولت بيان كى جائے، اور روزہ ميں جو خوشى اور سرور اور اللہ تعالى كى خوشنودى و رضا، اور نفس كا اطمينان اور راحت قلبى، كے ساتھ ساتھ رمضان كے ايام اور راتوں ميں قرآن مجيد كى تلاوت اور قيام كى لذت بھى بيان كى جائے.

5 - انہيں بعض دروس اورتقارير سننے كى دعوت دى جائے، اور چھوٹے چھوٹے پمفلٹ اور كتابچے كا مطالعہ كرنے كى دعوت دى جائے جن ميں روزوں كے مسائل اور اس كى اہميت اور مسلمان كى روزہ ميں حالت بيان كي گئى ہو.

6 - آپ انہيں دعوت دينے اور تبليغ كرنے ياد دہانى كرانے ميں اكتاہٹ نہ محسوس كريں، اور اچھى اور نرم بات سے انہيں نصيحت كريں اور اس كے ساتھ ساتھ ان كى ہدايت اور مغفرت كے ليے سچى دعا كريں.

ہم اپنے اور آپ كے ليے اللہ تعالى سے توفيق راہنمائى طلب كرتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب