منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

قرآن کریم کا سات لھجوں میں نزول

5142

تاریخ اشاعت : 13-11-2008

مشاہدات : 43701

سوال

میں نے یہ پڑھا ہے کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئ تاکہ وہ قرآن مجید اکٹھا کرے ، لیکن یہ نص ( عثمانی ) ایک قرات پر ہی موحد نہیں ،اس لۓ کہ پہلی عربی زبان میں حروف علت نہیں تھے ، اور اسی طرح کچھ حروف صحیحہ بھی اس شکل میں نہیں تھے ، اور مختلف حروف میں فرق کرنے کے لۓ کچھ علامات ایجاد کی گئيں ، لیکن یہ سب کچھ قرآن مجید کی مختلف قرآت کو نہ روک سکا ۔
تو چوتھی / دسویں صدی کے نصف میں بغداد میں قرآات کے امام ابن مجاھد نے اس مشکل کو حل کرنے کے متعلق کہا کہ کلمہ " الحرف " قراۃ کی جگہ لے سکتا ہے اور اس بات کا اعلان کیا کہ ان کے خیال میں قرآت سبعۃ صحیح ہیں اس لۓ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ قول کہ قرآن مجید سات حرفوں میں نازل ہوا ہے ، کا معنی یہ ہے کہ :
قرآن مجید کی قرآت میں سات طریقے ہیں ۔
اور ان دنوں میں قرآن کریم کی مشہور اور جو قرآات چل رہی ہیں وہ ، ورش ، نافع ، اور حفص عن عاصم ہیں ۔
آپ سے میری گزارش ہے کہ ان مختلف قرآات کے متعلق بتائیں کہ کیا اس کے متعلق کوئ صحیح احادیث پائ جاتی ہیں ؟ ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

پہلی :

اللہ تعالی آپ کو توفیق سے نوازے آپ کو یہ علم ہونا چاہۓ کہ شروع میں قرآن مجید صرف ایک ہی حرف (لھجہ ) میں نازل ہوا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم جبریل علیہ السلام سے زیادہ کامطالبہ کرتے رہے حتی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سات لھجوں میں جو کہ کافی وشافی ہیں قرآن مجید پڑھایا اوراس کی دلیل یہ ہے کہ :

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جبریل علیہ السلام نے مجھے قرآن مجید ایک لہجہ میں پڑھایا تو میں ان سے زیادہ مطالبہ کیا تو انہوں نے زيادہ کردیا تو میں مطالبہ کرتا رہا اور وہ زیادہ کرتے رہے حتی کہ سات لھجوں میں جا کرختم ہوا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3047 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 819 ) ۔

دوسری :

الاحرف کا معنی کیا ہے ؟

اس کے معنی میں سب سے اچھااور بہتر قول یہ ہے کہ قرآت کے سات طریقے جو لفظی طور پر مختلف ہیں اورمعنی میں متفق اور اگر ان کے معانی میں اختلاف بھی وہ تویہ اختلاف تنوع اور تغایر ہے نہ کہ اختلاف تعارض اور تضاد ۔

اور حرف کا لغوی معنی وجہ کا ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ ایک کنارے پر ( کھڑے ) ہوکراللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں ، اگر کوئ نفع مل جاۓ تو دلچسپی لینے لگتے اور اگر کوئ آفت آپڑے تواسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں ، انہوں نے دونوں جہانوں کا نقصان اٹھا لیا یہ واقعی کھلا نقصان ہے الحج ( 11 ) ۔

تیسری :

بعض علماء کا کہنا ہے کہ : الاحرف کا معنی عرب کی لغات ہے ، لیکن یہ معنی عمربن خطاب رضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث کی بناپر صحیح نہیں وہ کہتےہیں کہ :

میں نے ھشام بن حکیم رضی اللہ تعالی عنہ کوسورۃ الفرقان اپنی قرآت کے علاوہ کسی اور قرآت میں پڑھتے ہوۓ پايا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت مجھے پڑھائ تھی ، میں قریب تھا کہ اس پر جلدبازي کرتا لیکن میں نے اسے وقت دیا حتی کہ اس نے وہ سورۃ ختم کرلی ، پھر میں نے اسے اس کی چادر سے پکڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے اسے سورۃ فرقان اس طرح پڑھتے ہوۓ پایا جو کہ آپ نے مجھے پڑھائ‏ تھی اس کے خلاف ہے ۔

تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے پڑھو تو اس نے اسی طرح وہ پڑھی جس طرح میں نے اسے سنا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اسی طرح نازل ہوئ ہے ، پھر مجھے کہنے لگے کہ تم پڑھو تو میں نے بھی پڑھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ اسی طرح نازل ہوئ‏ ہے ، یقینا قرآن مجید سات حرفوں ( لہجوں ) میں نازل کیا گیا ہے توتم جو بھی اس میں میسر ہو پڑھو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2287 ) صحیح مسلم ( 818 ) ۔

اور یہ معلوم ہے کہ ھشام رضی اللہ تعالی قریش میں سے اسدی ہیں اور عمر رضي اللہ تعالی عنہ قریش میں عدوی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ، اور دونوں ہی قریشی ہیں اورقریش کی تو ایک ہی زبان ولغت ہے ، تواگر حروف کا اختلاف لغات میں اختلاف ہوتا تو یہ دونوں قریشی صحابی آپس میں اختلاف نہ کرتے ۔

اور اس مسئلہ میں علماء کرام نے چالیس کے قریب اقوال نقل کۓ‎ ہیں ، اور ان میں سے راجح قول شا‎ئد وہی ہے جو کہ ہم نے ذکر کیا ہے واللہ اعلم ۔

چوتھی :

حدیث عمر رضي اللہ تعالی عنہ سےیہ واضح ہوتا ہےکہ حروف متعدد الفاظ میں نازل ہوۓ اس لۓ‌ کہ عمررضی اللہ تعالی عنہما کا انکار حروف میں تھا نہ کہ معانی میں ، اور پھریہ حروف میں اختلاف اختلاف تضادنہیں بلکہ اختلاف تنوع ہے جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما کا قول ہے کہ :

( یہ اسی طرح ہے کہ جس طرح آپ یہ کہیں کہ ھلم ، اقبل ، تعال ) ان کا معنی ایک ہی ہے ۔

پانچویں :

اب رہی قرآت سبعۃ کی تحدید تو یہ تحدید قرآن وسنت میں سے نہیں کی گئ بلکہ ابن مجاھد رحمہ اللہ تعالی کا اپنا اجتھاد ہے ، تو لوگ یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ سات حروف سے قرآت سبعۃ ہی مراد ہے اس لۓ کہ یہ تعداد میں ایک جیسے ہی ہیں ۔

یہ عدد یا تو اتفاقی طورپر اوریا پھر ان سے قصدا ہیں تا کہ یہ تعداد احرف سبعۃ سے مطابقت اختیارکرلے ، اور بعض لوگوں کا جو یہ گمان ہے کہ احرف سبعۃ سے مراد یہی قرآت سبعۃ ہے تو یہ ان کی غلطی ہے ، اوراھل علم سے یہ بات معروف نہیں ۔

بلکہ قرآت سبعۃ احرف سبعۃ میں سے ایک حرف ہے اور یہی وہ حرف ہے جس پر عثمان رضی اللہ تعلی عنہ نے مسلمانوں کو جمع کیا تھا ۔

چھٹی :

عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جب مصحف نسخ کیا تو اسے ایک ہی حرف پر تیار کیا لیکن انہوں نے اس پر نقطے اور اعراب ( زیر زبر وغیرہ ) نہ لگاۓ تاکہ اس رسم میں وسعت رہے اور دوسرے لھجات ( حروف ) کا بھی احتمال رہے تو جو اس میں رہا اس کی قرآت بن گئ اور جو نہ تھا اس کو نسخ کردیا گيا ، اور یہ کام اس لۓ ہوا کہ قرآت میں لوگ اختلاف کرنے لگے تو عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں ایک نسخہ پر جمع کردیا تا کہ اختلاف ختم ہو ۔

ساتویں :

آپ کا سوال میں یہ کہنا کہ مجاھد رحمہ اللہ تعالی کا گمان ہے کہ قرآت حرف کی جگہ میں ہے ، تو یہ قول غیر صحیح ہے جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ مجموع فتاوی (ج 13 /210 )۔

اور قراء سبعۃ کےنام مندرجہ ذيل ہیں :

1 - نافع المدنی ۔ 2 – ابن کثیر المکی ۔ 3 - عاصم الکوفی 4 - حمزہ زیات الکوفی 5 – الکسائ الکوفی 6 – ابو عمروبن علاء البصری 7- عبداللہ بن عامرالشامی ۔ رحمہ اللہ تعالی جمیعا ۔

ان سب میں سے قرآت کی سند کے اعتبار سے قوی نافع اور عاصم ہیں ۔

اور ان میں سے فصیح ابوعمرو اور کسائ ہیں ۔

اور نافع سے ورش اور قالون روایت کرتے ہیں ۔

اور عاصم سے حفص اور شعبۃ روایت کرتے ہیں ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب