منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

شادی کی ناکامی کے خوف سے ابتدامیں مانع حمل گولیاں استعمال کرنا

5196

تاریخ اشاعت : 21-09-2004

مشاہدات : 7664

سوال

کیا عورت کے لیے شادی سے قبل مانع حمل گولیاں استعمال کرنا جائز ہیں کہ کہیں حمل ہوجائے اورپھر شادی ناکام ہونے کی بنا پر طلاق ہوجائے اوروہ بچہ کے ساتھ باقی رہے ؟
کیا شب زفاف میں خاوند کوبتانا واجب ہے کہ وہ گولیاں استعمال کرے گی ؟
توکیا اوپر بیان کی گئے کی روشنی میں یہ جائز ہے کہ شادی کے صرف پہلے برس مانع حمل گولیاں استعمال کی جائيں ، احتمال ہے کہ کہیں شادی ناکام نہ ہوجائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب طبی طورپر یہ ثابت ہے کہ مانع حمل گولیاں استعمال کرنے میں عورت کونقصان اورضرر ہوتا ہے تو اس بنا پر مانع حمل گولیاں استعمال کرنا جائز نہیں چاہے وہ شادی سے قبل ہوں یا پھر شادی کے بعد ، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ ضرر سے بچنا چاہیے جوکہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں بیان کیا ہے :

اورتم اپنے آپ کوقتل نہ کرو

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

اوراپنے ہاتھوں کوہلاکت میں نہ ڈالو ۔

لیکن اگرایسا ہو سکے کہ کوئي ایسی گولیاں تیار کرلی جائيں جونقصان اورضرر سے خالی ہوں توپھر ہوسکتا ہے ۔

اوررہا مسئلہ منع حمل کا تو اس بار میں گزارش ہے کہ شادی کے شروع میں یہ گمان کرتےہوئے کہ کہیں شادی ناکام نہ ہوجائے کسی ایسے وسیلہ سے حمل روکنا جونقصان دہ نہ ہو اس میں بہت سی محذورات پائي جاتی ہیں :

- ہوسکتا ہے کہ یہ بدشگونی اوربدفالی ہے ، اس لیے کہ اس نے ناکامی کی توقع کی ہے ۔

- ہوسکتا ہے اس سے خاوند اوربیوی کے مابین سوء معاشرت پیدا ہو ، اوردونوں طرف سے شر محسوس کیا جائے گا ، کیونکہ یہ تومعروف اورمعلوم ہے کہ نکاح کے مقاصد میں نسل کا ہونا شامل ہے ، اورجب کسی معین سبب کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوخاوند اوربیوی کے مابین تعلقات میں کشیدگي پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے ، اورپھر جب خاوند پر یہ انکشاف ہو کہ بیوی کا یہی مقصد ہے توتعلقات اورزيادہ کشیدہ ہوجاتےہیں ۔

- عورت کے ہاں حمل ہی ایک ایسی چيز ہے جواس کے خاوند اوراولاد کے لیے محبت ومودت اوررحم دلی کا شعور پیدا کرتی ہے ، تو جب حمل کوہی روک دیا جائے توپھر اس کے برعکس صفات پیدا ہونگي ۔

- فقھاء رحمہم اللہ تعالی نے عزل یا پھر حمل کی نالی بند کروانے میں یہ شرط رکھی ہے کہ اس میں طرفین یعنی خاونداور بیوی کی رضامندی شامل ہونی چاہیے ، اس لیے کہ دونوں کوبچہ حاصل کرنے کا حق ہے ، اس لیے عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ خاوند کی اجازت و رضامندی کے بغیر مانع حمل ادویات استعمال کرے ۔

- ناکامی کے خوف اورمعاشرے میں کثرت طلاق کواس طریقہ سے ختم نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ اس کا علاج تویہ ہے کہ خاوند کا اختیار صحیح ہو ، اوروہ شروط جوشریعت نے خاوند اوربیوی میں رکھی ہيں وہ تلاش کرنی چاہییں اورپھر منگتر کودیکھنے کا موقع دینا چاہیے کیونکہ یہ نکاح کے بعد محبت و مودت کے حصول کا سبب ہے ، اوراس کے علاوہ دوسرے وسائل بھی ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے لیے ہمارے معاملات میں آسانی وھدایت پیدا فرمائے ، اورہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحتیں نازل فرمائے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد