جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

سستی کرتے ہوئے نماز چھوڑ دی

سوال

اگر میں سستی کی بنا پر نماز نہ پڑھوں تو مجھے کافر سمجھا جائے گا یا نافرمان مسلمان؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

امام احمد سستی کرتے ہوئے نماز چھوڑنے والے کو کافر کہتے ہیں، یہی موقف راجح ہے، کتاب و سنت کے دلائل  اور سلف صالحین کا فہم اور صحیح نظر و فکر بھی اسی موقف کی تائید کرتے ہیں۔
تفصیلات کیلیے دیکھیں: "الشرح الممتع على زاد المستنقع"( 2/26)

کتاب و سنت کی نصوص پر غور و فکر کرنے والا اس نتیجے تک پہنچے گا کہ قرآن و سنت دونوں ہی نماز چھوڑنے والے شخص کے کفر اکبر پر دلالت کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ شخص ملتِ اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے، چنانچہ قرآنی دلائل میں سے چند یہ ہیں:
فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ
ترجمہ: اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کرنے لگیں تو وہ تمہارے دینی  بھائی ہیں [التوبہ: 11]

یہ آیت دلیل اس طرح بنتی ہے کہ اس میں اللہ تعالی نے ہمارے اور مشرکین کے درمیان دینی بھائی چارہ کے قیام کو تین شروط کے ساتھ جائز قرار دیا  ہےکہ وہ : شرکیہ امور سے توبہ کر لیں، نماز قائم کریں، اور زکاۃ ادا کریں، چنانچہ اگر مشرکین شرک سے توبہ تو کر لیں لیکن نماز اور زکاۃ کا اہتمام نہ کریں تو وہ ہمارے دینی بھائی نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر وہ نماز تو قائم کریں لیکن زکاۃ ادا نہ کریں تو وہ ہمارے دینی بھائی نہیں ہیں، اور یہ بات واضح ہے کہ دینی اخوت اسی وقت ختم ہوتی ہے جب انسان دین سے کلی طور پر باہر نکل جائے، محض فسق اور کبیرہ گناہوں سے دینی اخوت ختم نہیں ہوتی۔

اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے:
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (59) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا
ترجمہ:  پھر ان کے بعد ان کی نا لائق اولاد ان کی جانشین بنی جنہوں  نے نماز کو ضائع کیا اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے۔ وہ عنقریب گمراہی کے انجام  سے دوچار ہوں گے۔ [60] البتہ ان میں سے جس نے توبہ کر لی، ایمان لایا  اور اچھے عمل کئے تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ بھر بھی حق تلفی نہ ہوگی۔ [مريم: 59، 60]

یہ آیت دلیل اس طرح بنتی ہے کہ اللہ تعالی نے نمازیں ضائع کرنے والوں اور شہوت پرستی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو کہا: " إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ"[ البتہ ان میں سے جس نے توبہ کر لی،اور  ایمان لایا] اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ نمازیں ضائع کر رہے تھے اور شہوت پرستی میں مگن تھے،  وہ اس وقت مومن نہیں تھے۔

اسی طرح تارکِ نماز کے کافر ہونے پر احادیث مبارکہ  میں بھی دلائل موجود ہیں ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (آدمی اور شرک  و کفر کے درمیان   فرق نماز چھوڑنا ہے) امام مسلم رحمہ اللہ نے اسے کتاب الایمان میں سیدنا جابر بن عبد اللہ  کی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے۔

اسی طرح بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ : (ہمارے اور ان کے درمیان معاہدہ نماز ہے، جس نے نماز چھوڑی اس نے کفر کیا) اسے احمد، ابو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث میں کفر سے مراد دائرہ اسلام سے خارج کر دینے والا کفر ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو مومنوں اور کافروں کے درمیان حد فاصل مقرر فرمایا ہے، اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ملت کفر اور ملت اسلامیہ دونوں الگ الگ ہیں، لہذا اگر کوئی شخص معاہدے یعنی نماز کی پابندی نہیں کرتا تو وہ کافروں میں سے ہے۔

اسی طرح عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں، وہ تمہارے لیے دعائیں کرتے ہیں اور تم ان کیلیے دعائیں کرتے ہو، اور تمہارے بد ترین حکمران وہ ہیں جن سے تم بغض کرو اور وہ تم سے بغض کریں، تم ان پر لعنت کرو  اور وہ تم پر لعنت کریں) کہا گیا: اللہ کے رسول! کیا ہم تلوار سے اسے نیچے نہ اتار دیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں، جب تک وہ تمہارے اندر نماز پڑھتے رہیں)

تو اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور ان پر مسلح کاروائی  اسی وقت ہوگی جب وہ نماز نہ پڑھیں، لہذا حکمرانوں  کے خلاف بغاوت اور ان کے خلاف اعلان جنگ اسی وقت ہو گا جب وہ صریح طور پر کفریہ کام کریں اور ہمارے پاس ان کے کفر کو ثابت کرنے کیلیے اللہ تعالی کی طرف سے دلیل بھی ہو؛ کیونکہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دعوت دی تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر لی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے ہوئے جو امور ذکر کئے تھے وہ یہ تھے: ہم ہر وقت اطاعت کریں گے اور بات سنیں گے چاہے وہ ہماری مرضی کے مطابق ہو یا نہ ہو، چاہے ہم تنگی میں ہوں  یا خوشحالی میں اور چاہے ہمیں نظر انداز کر کے ہم پر دوسروں کی ترجیح دی جا رہی ہو، نیز ہم حکمرانوں سے حکومت نہیں چھینیں گے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الا کہ تم واضح ترین کفر دیکھو کہ تمہارے پاس اس کے بارے میں اللہ کی طرف سے واضح دلیل بھی ہو" متفق علیہ

اس حدیث کی روشنی میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمرانوں کے خلاف بغاوت اور مسلح کاروائی  کو نمازیں نہ پڑھنے کے ساتھ نتھی اور منسلک فرمایا، اور حکمرانوں کی جانب سے نماز نہ پڑھنے کا عمل ان کے واضح کفر کی علامت ہے جس کے متعلق ہمارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح دلیل بھی ہو۔

اگر کوئی شخص کہے کہ: کیا ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کہ جن نصوص میں نماز چھوڑنے پر کفر کا حکم ہے انہیں صرف ایسے شخص پر لاگو کیا جائے جو نماز کی فرضیت کا ہی منکر ہے اور اسی لیے وہ نماز نہیں پڑھتا؟

تو ہم کہیں گے: ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں دو قباحتیں ہیں:

1- اس طرح سے جس وصف کو صاحبِ شریعت نے معتبر سمجھا اور اسی کے ساتھ حکم بھی لاگو فرمایا ہم اس وصف کو کالعدم قرار دے دیں گے؛ کیونکہ صاحبِ شریعت نے کفر کا حکم نماز چھوڑنے پر لگایا ہے نماز کا انکار کرنے پر نہیں، اسی طرح صاحبِ شریعت نے نماز قائم کرنے پر دینی اخوت کھڑی کی ہے محض نماز کے فرض ہونے کا اقرار کرنے پر نہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ : [فَإِنْ تَابُوا وَأَقرُّوْا بِوُجُوْبِ الصَّلَاةَ](یعنی: اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز فرض ہونے کا اقرار کر لیں) اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ : (آدمی اور شرک  و کفر کے درمیان  فرق نماز کی فرضیت کے انکار کا ہے) یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ: (ہمارے اور ان کے درمیان معاہدہ نماز کے واجب ہونے کا اقرار ہے، جس نے نماز کے واجب ہونے کا انکار کیا اس نے کفر کیا) اگر یہ اللہ تعالی  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہوتی تو اس سے عدولی قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کے منافی ہے، حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کے بارے میں فرمایا ہے:
وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ
ترجمہ: اور ہم نے آپ پر کتاب نازل کی ہے جو ہر چیز کی وضاحت کرتی ہے۔[النحل: 89]

اور اسی طرح اللہ تعالی نے اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ
ترجمہ: اور ہم نے آپ کی جانب ذکر نازل کیا ہے تا کہ آپ لوگوں کو واضح کر کے بتلائیں جو کچھ ان کی جانب نازل کیا گیا ہے۔[النحل: 44]

2- دوسری قباحت یہ ہے کہ ایسے وصف کو شرعی حکم کا محور سمجھنا پڑے گا جسے صاحبِ شریعت نے محور نہیں بنایا؛ کیونکہ پانچوں نمازوں کی فرضیت کا انکار کرنے سے وہ شخص کافر ہو جاتا ہے جس کا عذر بالجہل قابل قبول نہیں چاہے وہ نمازیں پڑھتا ہو یا نہ پڑھے اس سے فرق نہیں پڑتا، فرض کریں کہ اگر کوئی شخص پانچوں نمازیں پڑھتا ہے اور تمام معتبر شرائط، ارکان، واجبات اور مستحبات کی ادائیگی یقینی بناتا ہے ، لیکن وہ نماز کی فرضیت کا بغیر کسی عذر کے منکر ہے تو وہ بھی کافر ہے! حالانکہ اس نے نماز ادا کی ہے چھوڑی نہیں ہے۔

تو اس سے واضح ہوا کہ ان نصوص کو نماز کی فرضیت کا انکار کرنے والے پر محمول کرنا  صحیح نہیں ہے، لہذا صحیح موقف یہ ہے کہ نماز چھوڑنے والا شخص کافر ہے ، دائرہ اسلام سے خارج ہے جیسے کہ یہی بات امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ  کی کتاب "سنن" میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی: (اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک مت بناؤ، جان بوجھ کر نماز مت چھوڑو، کیونکہ جس نے جان بوجھ کر نماز ترک کی تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا)

اسی طرح اگر ہم نے ان نصوص کو نماز کی فرضیت کا انکار کرنے والے پر محمول کر دیا تو نماز کو خاص کرنے کا فائدہ ہی باقی نہیں رہے گا؛ کیونکہ پھر یہ حکم نماز کے ساتھ خاص نہیں ہے یہ تو زکاۃ، روزے اور حج سب کے ساتھ ہے چنانچہ اگر کوئی بھی شخص ان میں سے کسی ایک عمل کو اس کی فرضیت کا انکار کرتے ہوئے چھوڑ دے تو وہ کافر ہو جائے گا، الا کہ لاعلمی کی صورت میں اس کا کوئی عذر  ہو۔

تو جس طرح تارکِ نماز کو کافر قرار دینا کتاب و سنت کے دلائل کا تقاضا ہے،  اسی طرح عقلی دلیل بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ اسے کافر مانا جائے، لہذا [عقلی طور پر ] یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص نماز بھی نہ پڑھے اور مومن بھی ہو! حالانکہ نماز دین کا ستون ہے! اسی نماز کیلیے ہی اتنی ترغیب ہے کہ جس مومن کے ہوش و حواس قائم ہوں اسے نماز کا وقت داخل ہونے پر فوری طور پر پڑھنی ہو گی! اور نماز ترک کرنے پر اتنی زیادہ وعید ہے کہ جس مومن کے ہوش و حواس قائم ہوں اسے نماز چھوڑنے اور ضائع کرنے سے بچنا ضروری ہے! تو ایسی صورت میں نماز چھوڑنے پر ایمان باقی نہیں رہ سکتا۔

اگر کوئی شخص یہ کہے کہ:  کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ : یہاں پر تارک نماز پر لاگو ہونے والا کفر ، کفران والا ہو یعنی جس کو نا شکری کہتے ہیں،اور  اس کفر سے مراد دائرہ اسلام سے خارج کرنے والا کفر مراد نہ ہو جسے کفر اکبر کہتے ہیں؟ بلکہ کفر کی ذیلی اقسام مراد ہوں، تو پھر ان نصوص کا معنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث جیسا ہو گا (لوگوں میں دو چیزیں کفر کا باعث ہیں: نسب نامے میں قدغن لگانا، اور میت پر نوحہ کرنا)  اور اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ: (مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے) دیگر احادیث میں بھی اسی طرح گناہوں پر کفر کا لفظ بولا گیا ہے۔

تو اس کے جوا ب میں ہم کہیں گے کہ: یہ احتمال اور مثالیں  کئی اعتبار سے صحیح نہیں ہیں:

1- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو کفر اور ایمان کے درمیان، مومن اور کفار کے درمیان امتیازی حد قرار دیا ہے جس کی وجہ سے دونوں میں فرق عیاں ہوتا ہے ، اب کفر اور ایمان دو الگ الگ چیزیں ہیں ان میں سے کوئی ایک دوسرے میں داخل نہیں ہو سکتا۔

2- نماز ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے، اور رکن کو ترک کرنے والے کو کفر سے موصوف کرنے کا تقاضا یہ بنتا ہے کہ یہ دائرہ اسلام سے خارج کرنے والا کفر ہو ؛ کیونکہ نماز ترک کرنے سے اسلام کا ایک رکن منہدم ہو جاتا ہے، لہذا  نماز ترک کرنے کا معاملہ کسی ایسے عمل جیسا نہیں ہے جس میں کسی کفریہ کام کرنے والے پر کفر کا صرف جزوی وصف لاگو کیا جائے۔

3- ایسی دیگر نصوص بھی ہیں جن میں نماز چھوڑنے والے پر  یہ حکم لگایا گیا ہے کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اس لیے ان نصوص میں موجود کفر کو اسی معنی میں لیا جائے گا جس کے مطابق دیگر روایات کے الفاظ ہیں، تا کہ تمام احادیث کا معنی اور مفہوم یکساں ہو جائے۔

4- احادیث مبارکہ میں نماز چھوڑنے پر کفر کا حکم لگاتے ہوئے ایک مختلف تعبیر استعمال کی گئی ہے، چنانچہ نماز چھوڑنے پر کفر کا حکم لگاتے ہوئے فرمایا: " بين الرجل وبين الشرك والكفر " تو یہاں پر لفظ "کفر" کو "ال "کے ساتھ ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کفر سے مراد حقیقی  کفر ہے، جبکہ نماز کے علاوہ دیگر امور میں کفر کا حکم لاگو کرنے کیلیے لفظ "کفر" کو "ال "کے بغیر ذکر کیا ہے، یا پھر "کَفَرَ" فعل ماضی کا صیغہ استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ : وہ کفریہ عمل  کر رہا ہے، یا  یہ کام کفریہ عمل ہے، اس سے  کفر مطلق مراد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب "اقتضاء الصراط المستقیم" کے صفحہ 70 -طبعہ السنہ المحمدیہ -میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث " اثنتان في الناس هما بهما كفر" کی تشریح میں کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اثنتان في الناس هما بهما كفر"[دو چیزیں جن کے ذریعے لوگ کفر یہ عمل کا شکار ہوتے ہیں] کا مطلب یہ ہے کہ: یہ دو خصلتیں کفریہ کام ہیں اور لوگ انہیں کرتے ہیں، یہ دونوں خصلتیں کفریہ کاموں میں شامل ہیں اور لوگوں میں مروج ہیں، اور یہ بات واضح رہے کہ کوئی بھی شخص جو کفریہ کام کرے تو وہ مطلق طور پر کافر نہیں ہو جاتا کہ اسے حقیقی کافر سمجھا جائے، بالکل اسی طرح کوئی بھی شخص اگر ایمانی کاموں میں سے کوئی کام کرے  تو وہ مومن نہیں بن جاتا جب تک وہ حقیقی طور پر ایمان نہ لے آئے۔
نیز فرامین نبویہ میں موجود لفظ "کفر" جب الف لام کے ساتھ معرفہ بن کر آئے  اور بغیر الف لام کے نکرہ ہو تو دونوں میں کسی پر کفر کا حکم لاگو کرنے میں فرق ہوتا ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: " ليس بين العبد وبين الكفر أو الشرك إلا ترك الصلاة" (ترجمہ: بندے اور کفر یا شرک کے درمیان صرف نماز چھوڑنے کا فرق ہے)[اس حدیث میں کفر کو الف لام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے]" انتہی

جب ان دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہو گئی کہ بغیر عذر کے نماز ترک کرنے والا شخص کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے تو پھر صحیح رائے وہی ہے جو کہ امام احمد کا موقف ہے اور اسی موقف کے مطابق امام شافعی کی بھی ایک رائے ہے، جیسے کہ امام ابن کثیر نے اللہ تعالی کے فرمان: فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ
ترجمہ:  پھر ان کے بعد ان کی نا لائق اولاد ان کی جانشین بنی جنہوں  نے نماز کو ضائع کیا اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے [مريم: 59] کی تفسیر کے تحت ذکر کیا ہے۔

اسی طرح ابن قیم رحمہ اللہ نے  اپنی کتاب : الصلاۃ میں ذکر کیا ہے کہ :
" شافعی مذہب کے دو موقفوں میں سے ایک موقف یہی ہے، اور امام طحاوی نے امام شافعی سے خود ان کا یہی موقف بیان کیا ہے"

یہی موقف جمہور صحابہ کرام کا ہے بلکہ متعدد اہل علم نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔

سیدنا عبد اللہ بن شقیق   کہتے ہیں :
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نماز کے علاوہ کسی بھی عمل کو کفر نہیں سمجھتے تھے" اسے ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے بخاری و مسلم کی شرط پر قرار دیا ہے۔

اسی طرح مشہور امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے کہ نماز نہ پڑھنے والا کافر ہے، یہی رائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لیکر آج تک اہل علم کی رہی ہے کہ اگر نماز جان بوجھ کر بغیر کسی عذر کے کوئی چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ اس کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو وہ کافر ہے"

ابن حزم رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ:
"سیدنا عمر، عبد الرحمن بن عوف، معاذ بن جبل، ابو ہریرہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے یہی موقف مروی ہے، ابن حزم نے مزید کہا کہ ہمیں اس مسئلے میں صحابہ کرام کے مابین کوئی مخالف نظر نہیں آیا" ان کی یہ بات امام منذری نے الترغیب و الترہیب  میں نقل کی ہے، اور امام منذری مزید صحابہ کرام کے نام آگے لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ:
"عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، جابر بن عبد اللہ اور ابو درداء رضی اللہ عنہم سے بھی یہی منقول ہے"

پھر انہوں نے کہا ہے کہ:
"صحابہ کرام کے علاوہ  امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، عبد اللہ بن مبارک، نخعی، حکم بن عتیبہ، ایوب سختیانی ، ابو داود طیالسی، ابو بکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب و دیگر ائمہ کا بھی یہی موقف ہے" انتہی

واللہ اعلم .

ماخذ: ماخوذ از: رسالہ : نماز چھوڑنے والے کا حکم، از شیخ محمد بن صالح عثیمین