منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

يوم والدہ نہ منانے پر والدہ نارض ہوتى ہے

59905

تاریخ اشاعت : 18-03-2012

مشاہدات : 9675

سوال

ايك عرب ملك كا باشندہ ميرا دوست ہے وہاں سركارى طور پر يوم والدہ منايا جاتا ہے، ميرا يہ دوست والدہ كى بنا پر اپنے بہن بھائيوں كے ساتھ يہ تہوار والدہ كى بنا پر مناتا ہے، ليكن اب وہ اس چيز كو ختم كرنا چاہتا ہے اگر ايسا كرے تو اس كى ماں ناراض ہوتى ہے كيونكہ وہ اس كى عادى ہو چكى ہے اور ان كے ملك ميں يہ عادت بن چكى ہے، اسے خدشہ ہے كہ اگر اس نے ايسا كيا تو والدہ ناراض ہو جائيگى اور موت تك اس سے راضى نہيں ہو گى، اس نے والدہ كو يہ سمجھانے كى كوشش كى ہے كہ يہ تہوار منانا حرام ہے ليكن والدہ مطمئن نہيں ہوئى كيونكہ ملك كى فضاء ہى ايسى ہے، اب اسے كيا كرنا چاہيے، اس كے متعلق ہميں معلومات فراہم كريں اللہ آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يوم والدہ كا جشن اور تہوار منانا ايك ايسى ايجاد كردہ بدعت ہے جو نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم منايا اور نہ ہى آپ كے صحابہ كرام نے، اور پھر اسى طرح يہ تہوار منانا تو كفار سے مشابہت ہے، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كفار كى مخالفت كرنے كا حكم ديا ہے، لہذا يہ تہوار منانا جائز نہيں اور نہ ہى اس معاملہ ميں والدہ كى اطاعت كى جائيگى، اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" معصيت و نافرمانى ميں اطاعت نہيں، بلكہ اطاعت تو نيكى و بھلائى ميں ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7257 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1840 ).

ليكن اس شخص كو اپنى والدہ كے ساتھ نيكى و بھلائى اور حسن سلوك كرتے رہنا چاہيے، اور وہ انہيں سمجھانے اور مطمئن كرنے كى كوشش كرے كہ يہ تہوار منانا بدعت ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" سب سے برے اور شرير ترين امور اس دين ميں بدعات ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 867 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 1578 ) نسائى رحمہ اللہ نے درج ذيل الفاظ زيادہ روايت كيے ہيں:

" اور ہر گمراہى آگ ميں ہے "

پھر والدہ كا حق تو يہ ہے كہ سارا سال ہى اس سے حسن سلوك كيا جائے اور نيكى و بھلائى كا برتاؤ ہو اور اس كا عزت و احترام كيا جائے نہ كہ كسى ايك مخصوص دن ميں، تو پھر اس تہوار كے وقت ہى والدہ سے حسن سلوك چہ معنى دارد ! ؟

پھر يہ بھى ہے كہ يہ بدعت تو ہمارے اندر صرف ان معاشروں سے وارد ہوئى ہے جہاں والدين كى نافرمانى عام ہو چكى ہے، جہاں آپ ديكھيں گے كہ ماں باپ كوئى اولڈ ہاؤسز كے علاوہ كہيں پناہ نہيں ملتى، اور ان معاشروں ميں آپ كو ماں باپ سے دورى اور قطع رحمى كے علاوہ كچھ نظر نہيں آئيگا، اس ليے انہوں يہ خيال كيا كہ ماں كى عزت ميں ايك دن كا تہوار منانا ان كى قطع رحمى كے گناہ كو دھو ڈالے گا، اور سال بھر ميں يہى كافى ہے؟!

ليكن ہمارا دين اسلام ہميں والدين كے ساتھ حسن سلوك كا حكم ديتا ہے، اور قطع رحمى سے روكتا ہے، ہمارے دين نے ماں كو ايسا مقام ديا ہے جو اسے كسى بھى شريعت ميں نہيں ديا گيا، حتى كہ ماں كا حق تو باپ سے بھى مقدم ہے.

جيسا كہ بخارى اور مسلم نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:

" ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آ كر كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم لوگوں ميں سے ميرے ليے حسن صحبت اور حسن سلوك كا سب سے زيادہ كون مستحق ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى ماں اس نے كہا پھر كون ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى ماں، اس نے پھر پوچھا اس كے بعد كون ؟ تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تيرى ماں.

اس نے عرض كيا: اس كے بعد كون ؟ تو آپ نے فرمايا تيرا والد "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5514 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 4621 ).

اور والدہ كے فوت ہونے جانے كے بعد ماں سے نيكى و حسن سلوك منقطع نہيں ہو جاتا، بلكہ ماں زندگى ميں بھى عزيز ہے اور فوت ہونے كى صورت ميں بھى، وہ اس طرح كہ جب فوت ہو تو والدہ كا نماز جنازہ ادا كيا جائے اور اس كے ليے بخشش و استغفار كى دعا كى جائے، اور اس كى وصيت كو پورا كرنا اور والدہ كے رشتہ داروں اور اس كى سہيليوں كى عزت و احترام كيا جائے.

اس ليے ہميں اپنے اس عظيم الشان دين كو اپنانا چاہيے اور اسلامى آداب و احكام پر عمل پيرا ہوں اسى ميں ہدايت و راہنمائى اور كفائت ہے اور اسى ميں رحمت پائى جاتى ہے.

شيخ على محفوظ رحمہ اللہ اسلامى تہواروں كو چھوڑ كر غير اسلامى تہواروں كو اپنانے كى خطرناكى اور اس تہوار ميں كفار كى مشابہت بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ ان كى امت سے كچھ لوگ اور گروہ ايسے ہونگے جو اہل كتاب كى ان كے شعار و علامات اور عادات ميں مشابہت كرينگے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں بيان كيا گيا ہے.

ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" البتہ ضرور بضرور تم اپنے سے پہلے لوگوں كے طريقوں كى ہاتھ كے برابر ہاتھ اور بالشت كے برابر بالشت پيروى كروگے حتى كہ اگر وہ گوہ كى بل اور سوراخ ميں داخل ہوئے تو تم بھى ان كى پيروى كرو گے.

صحابہ كہتے ہيں ہم نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس سے مراد يہود و نصارى ہيں ؟

تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اور كون ؟! "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

نقالى اور تقليد كى محبت اگرچہ دلوں ميں پائى جاتى ہے ليكن يہ شرعى طور پر اس وقت صحيح نہيں اور باعث غضب ہے جب كہ وہ عادت اور شعار ہمارى شريعت اور فكر و اعتقاد كے مخالف ہو، خاص كر جب وہ تقليد عقيدتا يا تعبدا ہو يا پھر وہ ان كا كوئى شعار اور عادت ہو.

جب مسلمان اس دور ميں كمزور ہو چكے ہيں؛ اور وہ اپنے دشمنوں كى عادات و كى پيروى اور زيادہ كرنے لگے ہيں اور ان ميں بہت سارے يورپى مظاہر رائج ہو چكے ہيں چاہے وہ كھپت كے اعتبار سے ہوں يا پھر تصرفات سلوكيہ، اور ان مظاہر ميں ماں كا تہوار بھى شامل ہے " انتہى

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى ماں كے تہوار كا جواب ديتے ہوئے كہتے ہيں:

" ہر وہ تہوار جو شرعى تہوار كے مخالف ہو وہ تہوار بدعتى اور نئے ايجاد كردہ ہيں، جو نہ تو سلف صالحين كے دور ميں معروف تھے، بلكہ يہ غير مسلمانوں كى جانب سے ايجاد كردہ ہيں، تو اس طرح اس ميں بدعت كے ساتھ ساتھ اللہ سبحانہ و تعالى كے دشمنوں سے مشابہت بھى ہوتى ہے.

اہل اسلام كے ہاں اسلامى تہوار معروف ہيں اور وہ عيد الفطر اور عيد الاضحى اور ہفتہ وار عيد جمعہ كا دن ہے، ان تين عيدوں كے علاوہ دين اسلام ميں كوئى اور تہوار نہيں، اس كے علاوہ جو تہوار اور عيديں ايجاد كر لى گئى ہيں وہ مردود ہيں اور شريعت اسلاميہ ميں باطل ہيں.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "

يعنى اللہ كے ہاں وہ قابل قبول نہيں، اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے "

جب يہ واضح ہو گيا تو وہ تہوار جس كا سوال ميں ذكر ہوا ہے اور جسے ماں كا تہوار كہا جاتا ہے منانا جائز نہيں، اس ميں عيد كے شعار ميں سے كوئى بھى شعار كرنا مثلا خوشى و سرور كا اظہار اور تحفے تحائف دينا يا اس طرح كا كوئى اور كام كرنا جائز نہيں.

مسلمان پر واجب ہے كہ وہ اپنے دين پر عمل پيرا ہو اور اس دين پر فخر كرے، اور اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے اس عظيم اور قيمتى دين ميں اپنے بندوں كے ليے جو مقرر كر ديا ہے نہ تو اس ميں كوئى كمى كرے اور نہ ہى اس ميں كوئى زيادتى كرے.

اور مسلمان كو يہ بھى چاہيے كہ وہ ہر ايك كى جى حضورى ہى نہ كرتا پھرے، بلكہ اس كى ايسى شخصيت ہونى چاہيے جو اللہ كى شريعت پر عمل كرنے والى ہو، تا كہ وہ متبوع ہو اور لوگ اس كى پيروى كريں نا كہ تابع بنتا پھرے، تا كہ وہ اسوہ و نمونہ ہو نا كہ كسى شخص كى بات ماننے والا، كيونكہ دين اسلام تو ہر اعتبار سے كامل ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

آج ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو مكمل كر ديا ہے اور تم پر اپنى نعمت كو بھرپور كر ديا ہے، اور تمہارے ليے اسلام كے دين ہونے پر راضى ہو گيا ہوں .

ماں اس سے زيادہ حقدار ہے كہ سال بھر ميں اس كے ليے صرف ايك دن منايا جائے، بلكہ ماں كا تو اولاد پر حق ہے كہ وہ ہر وقت اور ہر دن اس كا خيال ركھيں، اور اس كى ضروريات كا خيال كريں، اور ہر وقت اللہ كى معصيت كے علاوہ ماں كى اطاعت كرتے رہيں " انتہى

ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 2 / 301 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 10070 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات