جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

بغير وضوء نماز ادا كرنا كفر نہيں بلكہ كبيرہ گناہ ہے

سوال

مجھے علم ہے كہ جنابت كى حالت ميں نماز ادا كرنى جائز نہيں، ليكن اگر كوئى شخص جنابت كى حالت ميں نماز ادا كر لے تو اس نماز كا حكم كيا ہے ؟
وہ يہ محسوس كرتا ہے كہ اندر سے مكمل ٹوٹ چكا ہے، اور اپنى معصيت و نافرمانى پر غمزدہ ہے، كيونكہ اس نے ايك كتاب ميں پڑھا ہے كہ اگر مسلمان شخص بغير وضوء نماز ادا كر لے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اس بنا پر مذكورہ شخص كو كيا كرنا چاہيے ؟
كيا واقعتا وہ اس فعل كى بنا پر دائرہ اسلام سے خارج ہوا ہے يا نہيں ؟
وہ اس معصيت و نافرمانى سے كس طرح خلاصى اور توبہ كر سكتا ہے، يا اسے اپنے ايمان ( اسلام ) كى تجديد كرنا ہو گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسلمانوں كو يہ ضرور معلوم ہونا چاہيے كہ حدث اصغر اور اكبر سے طہارت و پاكيزگى اختيار كرنا واجب ہے، اور نماز صحيح ہونے كے ليے شرط ہے اور يہ كہ جس نے بھى بغير وضوء جان بوجھ كر عمدا يا بھول كر نماز ادا كى تو اس كى نماز باطل ہے، اسے وہ نماز دوبارہ ادا كرنا ہو گى، پھر اگر وہ عمدا ايسا كرتا ہے تو وہ كبيرہ گناہ اور عظيم معصيت كا مرتكب ٹھرےگا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" چنانچہ مسلمان شخص نہ تو قبلہ رخ كے علاوہ كسى اور طرف رخ كر كے نماز ادا كرے، اور نہ ہى بغير وضوء اور بغير ركوع يا سجدے كے، اور اگر كوئى شخص ايسا كرتا ہے تو وہ قابل مذمت اور سزا كا مستحق ٹھرےگا " انتہى

ديكھيں: منھاج السنۃ النبويۃ ( 5 / 204 ).

اورايسے كرنے والے كے متعلق شديد قسم كى وعيد آئى ہے:

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ كے بندوں ميں سے ايك بندے كو قبر ميں سو كوڑے مارنے كا حكم ديا گيا، چنانچہ وہ اللہ سے سوال كرتا رہا اور اس ميں كمى كى دعاء كرتا رہا حتى كہ ايك كوڑا رہا گيا، تو اسے ايك كوڑا مارا گيا جس سے اس كى قبر آگ سے بھر گئى، اور جب اس سے يہ سزا ختم ہوئى اور اسے ہوش آيا تو اس نے دريافت كيا: تم نے مجھے كوڑا كيوں مارا ؟

تو اسے كہا گيا: تم نے ايك نماز بغير وضوء ادا كى تھى، اور ايك مظلوم شخص كے پاس سے گزرے تو اس كى مدد نہ كى "

اسے امام طحاوى نے " مشكل الآثار ( 4 / 231 ) ميں نقل كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2774 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

دوم:

اہل علم متفق ہيں كہ جس نے بھى بغير وضوء كے نماز حلال سمجھتے ہوئے ادا كى، يا پھر استھزاء كرتے ہوئے بے وضوء نماز ادا كى تو اس نے كفر كا ارتكاب كيا، اسے توبہ كروائى جائيگى، اگر توبہ كرلے تو ٹھيك وگرنہ اسے قتل كر ديا جائيگا.

اور اگر وہ حقارت كى بنا پر بے وضوء نماز ادا كرتا ہے، نہ كہ حلال سمجھتے ہوئے، اور نہ ہى استھزاء كے ساتھ تو امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں اس نے بھى كفر كيا.

ليكن جمہور علماء كرام اسے كافر قرار نہيں ديتے، بلكہ وہ اس فعل كى بنا پر مرتكب كبيرہ ٹھرےگا.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اگر اسے حدث اور بے وضوء نماز ادا كرنے كى حرمت كا علم ہو تو اس نے عظيم معصيت كا ارتكاب كيا، اور ہمارے ہاں وہ كفر كا مرتكب نہيں ٹھرے گا، ليكن اگر وہ اسے حلال سمجھے تو پھر كافر ہے، اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى اسے بطور استھزاء ايسا كرنے پر بھى كافر قرار ديتے ہيں.

ہمارى دليل يہ ہے كہ: يہ معصيت ہے چنانچہ يہ زنا وغيرہ كے مشابہ ہوئى " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 84 ) اور روضۃ الطالبين ( 10 / 67 ) ميں بھى ايسے ہى لكھا ہے.

احناف كا مسلك ديكھنے كے ليے آپ " البحر الرائق ( 1 / 302 - 151 ) ( 5 / 132 ) اور حاشيۃ ابن عابدين ( 3 / 719 ) ديكھيں.

چنانچہ بغير طہارت اور وضوء كيے نماز ادا كرنے والے كو توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور وہ يہ عزم اور پختہ ارادہ كرے كہ آئندہ ايسا نہيں كرےگا، پھر وہ بغير وضوء ادا كردہ نماز كو دوبارہ ادا كرے، اللہ تعالى توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كرنے والا ہے، اور اسے اپنے اسلام كى تجديد كرنے كى كوئى ضرورت نہيں.

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 27091 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب