منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

غوطہ خورى كا پيشہ ركھنے والے شخص كے حلق ميں پانى چلا جائے تو وہ كيا كرے ؟

سوال

ميں روزانہ سمندر ميں غوطہ خورى كرتا ہوں، اور بعض اوقات سمندرى پانى كى پھوار حلق تك چلى جاتى ہے، ليكن پيٹ ميں نہيں گئى، كيا اس سے روزہ باطل ہو جاتا ہے ؟
اور كيا ميرے كام كى سختى كى بنا پر روزہ نہ ركھ سكوں تو مجھے كيا كرنا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سوال نمبر ( 39232 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ: ( روزے دار كے ليے پانى ميں غوطہ خورى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اسے حسب استطاعت حرص ركھنا ہوگى كہ پيٹ ميں پانى داخل نہ ہو ).

دوم:

رمضان المبارك كے روزے ركھنا اركان اسلام ميں سے ايك ركن ہے، چنانچہ كسى بھى مسلمان شخص كے ليے رمضان كے روزہ ميں سستى كرنا، يا پھر صرف كام كاج كى مشقت كى بنا پر روزہ ضائع كرنا جائز نہيں، بلكہ اگر ممكن ہو سكے تو اسے روزہ ركھنے اور كام كاج دونوں جمع كرنے كى كوشش كرنى چاہيے، ليكن اگر ايسا كرنا ممكن نہ ہو اور وہ كام كرنے پر مجبور نہ ہو تو پھر روزہ مقدم كيا جائيگا، اور اگر ممكن ہو تو ملازمت سے چھٹى حاصل كر لے اور اگر ممكن نہ ہو اور وہ ڈيوٹى پرجانے كے ليے مجبور ہو تو وہ رات كو روزے كى نيت كر كے صبح روزہ ركھ لے، اور اگر دوران كام اسے شديد مشقت پيش آئے اور روزہ برداشت نہ ہو تو اس كے ليے ضرورت كى بنا پر روزہ كھولنا جائز ہے، اور اس روزہ كى قضاء بعد ميں ادا كرنا ہوگى، اور اگر اس كے ليے روزہ مشقت نہ بنے اور اسے مكمل كرنے ميں كامياب ہو جائے تو ايسا كرنا واجب ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 43772 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 10 / 234 ).

سوم:

جب روزہ دار پانى ميں تيراكى كرے اور اس كے اختيار كے بغير پانى اس كے حلق ميں چلا جائے تو اس كا روزہ نہيں ٹوٹا، كيونكہ اس نے قصدا ايسا نہيں كيا، امام احمد رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے.

ديكھيں: المغنى ( 3 / 358 ) الانصاف ( 7 / 434 ) الشرح الممتع ( 6 / 393 ).

چہارم:

سائل كا يہ كہنا: كہ پانى اس كے حلق ميں چلا جاتا ہے، ليكن پيٹ ميں داخل نہيں ہوا "

شائد پيٹ سے مراد وہ معدہ لے رہا ہے.

روزہ فاسد كرنے والى اشياء ميں علماء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا كھانا پينا حلق تك جانا معتبر ہے، يا كہ معدہ تك پہنچنا معتبر ہوگا ؟

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

مؤلف رحمہ اللہ نے چھ مسائل بيان كيے ہيں جن ميں انہوں نے حكم كو روزے دار كے حلق تك پانى پہنچنے پر معلق كيا ہے، چنانچہ حكم كا دائرہ حلق تك پانى پہنچنے كے ساتھ ركھا ہے نہ كہ معدہ ميں پہنچنے تك، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كى كلام كا ظاہر يہ ہے كہ: معدہ تك مفطر چيز كا پہنچنا حكم ثابت كرتا ہے، اور اس ميں كوئى شك وشبہ نہيں كہ يہى مقصود ہے، جبكہ كتاب و سنت ميں اس كا كوئى ثبوت نہيں ملتا كہ حلق تك پہنچنے سے حكم ثابت ہو جاتا ہے، ليكن فقھاء رحمہم اللہ كا كہنا ہے:

حلق تك پہنچنا معدہ تك پہنچنے كا غماز ہے، اور اندر خالى جگہ تك مفطر چيز كا پہنچنا حكم ثابت كرتا ہے، اور حلق بھى اندر اور خالى ہے" انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 393 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

روزے كى حالت ميں تيراكى اور غوطہ خورى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور جب پانى حلق يا معدہ ميں بغير قصد اور ارادہ كے پہنچ جائے تو روزہ نہيں ٹوٹتا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب