جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

( ان اللہ یجب الجمال ) کا معنی کیا ہے

6652

تاریخ اشاعت : 05-05-2003

مشاہدات : 24033

سوال

حدیث ( ان اللہ یحب الجمال ) کا معنی کیا ہے ، اورخاص طورپر جمال سے کیا مراد ہے ؟
بعض لوگ اس حدیث سے خوبصورت عورتوں کی طرف دیکھنے اورخوبصورت چیز سے نفع حاصل کرنے پر استدلال کرتے ہیں، توکیا اس کی وضاحت ہوسکتی ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

سوال میں مذکورہ حدیث امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح مسلم میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما سے نقل کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا ، توایک شخص کہنے لگا آدمی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اورجوتے اچھے ہوں ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالی خوبصورت ہے اورخوبصورتی کوپسند فرماتا ہے ، تکبریہ ہے کہ حق کا انکار کیا جاۓ اور لوگوں کوحقیر اوراپنے آپ کواونچا سمجھا جاۓ ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 131 ) ۔

ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح بیان کرتےہوۓ کہتے ہیں :

حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ( بلاشبہ اللہ تعالی خوبصورت ہے اورخوبصورتی کوپسند فرماتا ہے ) کپڑوں کی خوبصورتی کے متعلق حدیث میں سوال کیا گیا ہے تویہ جملہ اسے اوراسی طرح ہرچیزکی خوبصورتی کوشامل ہے ۔

اورصحیح مسلم میں ہی حدیث نمبر( 1686 ) میں ہے کہ ( اللہ تعالی طیب پاک صاف ہے صاف ستھری چیز ہی قبول کرتا ہے ۔

اورسنن ترمذي میں ہے کہ ( بلاشبہ اللہ تعالی اپنی نعمت کا اثراپنے بندے پر دیکھنا پسند کرتا ہے ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 2963 ) امام ترمذی رحہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوحسن صحیح قرار دیا ہے ۔

ابوالاحوص جشمی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پھٹے پرانے لباس میں دیکھا توفرمانے لگے کیا تیرے پاس کوئ مال ہے تومیں نے جواب دیا جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون سا مال ہے ؟ تومیں نےجواب دیا اللہ تعالی نے مجھے اونٹ بکریاں وغیرہ دیں ہیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگـے تواس کی نعمت اورکرم کا تجھ پر اظہار ہونا چاہیے ۔ مسند احمد حدیث نمبر ( 15323 ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 1929 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 5128 ) ۔

تواللہ سبحانہ وتعالی یہ پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے پر اس کی کی ہوئ نعمت کا اثر نظرآۓ کیونکہ یہ اس جمال اورخوبصورتی میں سے ہے جسے اللہ تعالی پسند فرماتا ہے اورپھر یہ باطنی طورپر بھی یہ جمال اورخوبصورتی ہے کہ اس کی نعمت کا شکر ادا کیا جاۓ ، تواس لیے واجب اورضروری ہے کہ ظاہری جمال اورخوبصورتی نعمت کے ساتھ ہواورباطنی جمال اورخوبصورتی اللہ تعالی کی نعمت پر اس کا شکرادا کرکے ہو ۔

اوراللہ تعالی نےجمال وخوبصورتی سے اپنی محبت اورپسندیدگي کی بنا پرہی اپنے بندوں پرلباس وزینت کا نزول فرمایا جس سے وہ اپنے ظاہر کو خوبصورت اور تقوی سے اپنے باطن کوخوبصورت بناتے ہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :

اے بنو آدم ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا فرمایا جوتمہاری شرمگاہوں کوچھپاتا اورموجب زينت بھی ہے اورتقوے کا لباس اس سے بڑھ کر ہے الاعراف ( 26 ) ۔

اور اللہ تعالی نے اھل جنت کے بارہ میں فرمایا :

اورانہیں تازگی اورخوشی پہنچائ ، اور انہیں ان کے صبرکے بدلے جنت اورریشمی لباس عطا فرمایا الدھر ( 11 - 12 ) ۔

تو اللہ تعالی نے ان کے چہروں کوتروتازگي اورباطن کوخوشی اورسرور اوران کے جسموں اوربدنوں کو ریشم سے جمال اورخوبصورتی عطا فرمائ ، اور وہ اللہ تعالی جس طرح اقول و افعال اورلباس اورشکل وصورت میں خوبصورتی وجمال کوپسند فرماتا ہے ، اسی طرح وہ قبیح اوربرے افعال واقوال اورلباس و شکل سے بغض اورناپسندیدگي کا اظہار کرتا ہے ، اور اللہ تعالی قبیح قسم کے لوگوں اورقباحت سے بغض اورجمال وخوبصورتی اوراس اسے پسندکرنے والے لوگوں سے محبت کرتا ہے ۔

تواس موضوع میں اب دوگروہ بن چکے ہیں :

ایک گروہ تو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالی نے جوکچھ بھی پیدا فرمایا ہے وہ سب خوبصورت ہے ، تواللہ تعالی ہر اس چيزکوپسند کرتا ہے جسے اس نے پیدا فرمایا توہم اس کی ساری مخلوق سے محبت کرتے ہیں اور کسی سے بھی بغض نہیں رکھتے ،

ان کا کہنا ہے کہ : جس نے بھی اس ناحیہ سے کائنات کودیکھا تووہ اسے خوبصورت ہی دیکھے گا ۔

اوران لوگوں کے دلوں سے تواللہ تعالی کے لیے غیرت ہی ختم ہوچکی ہے اوراسی طرح اللہ تعالی کے لیے کسی سے بغض رکھنا اوراللہ تعالی کے لیے ہی کسی سے دشمنی کرنا اوربرائ کودیکھ کراسے روکنا بھی ان کے دلوں سے ناپید ہوچکا ہے ، اوراسی طرح جھاد اور حدوداللہ کا قیام بھی نہیں پایا جاتا ۔

اوریہ گروہ عورتوں اورمردوں کی خوبصورتی کوہی وہ خوبصورتی بنا بیٹھے ہیں جسے اللہ تعالی پسند فرماتا ہے ، تویہ اپنے فسق کی ہی عبادت میں لگے ہوۓ ہیں ، اوربعض نے اس حد تک غلوکرلیا ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ان کا معبود ان صورتوں میں ظاہر ہوتا اوران میں حلول کرجاتا ہے ۔

اوران کے مقابلہ میں دوسرا فریق یہ کہتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے حسین وجمیل شکلوں والوں اورمکمل اورتمام الخلقت رکھنےوالوں کی مذمت کی ہے ، تومنافقوں کے باوہ میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورجب آّپ انہیں دیکھیں گے توان کے جسم خوشنما معلوم ہونگے المنافقون ( 4 ) ۔

اوراللہ رب العزت کا یہ بھی فرمان ہے :

ہم توان سے پہلے بہت ساری جماعتوں کوغارت کرچکے ہیں جوسازو سامان اورمناظرمیں ان سے بڑھ چڑھ کر تھیں مریم ( 74 ) ۔ یعنی مال اور منظرکے اعتبار سے خوشنما تھیں ۔

اورصحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان روایت کیا گيا ہے کہ : ( بلاشبہ اللہ تعالی صورتوں اوراموال کی طرف نہیں دیکھتا لیکن وہ تمہارے دلوں اوراعمال کودیکھتا ہے ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 4651 ) ۔

اورایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے :

( سادگی ایمان کا حصہ ہے ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 4108 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 3630 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کوصحیح کہا ہے ۔

تواس نزاع کا فیصلہ یہ ہے کہ اس طرح کہنا چاہیے :

شکل وصورت اورلباس میں جمال وخوبصورتی کی تین اقسام ہیں ، ایک قسم تومحمود ہے اوردوسری مذموم اورتیسری نہ محمود اورنہ ہی مذموم ۔

وہ جمال اورخوبصورتی جوقابل ستائش ہے : وہ ہوگی جو اللہ تعالی کے لیے اوراس کی اطاعت میں ممدومعاون اور اللہ تعالی کے اوامر کی تنفیذ وقبول کرنے کے لیے ہو جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفود کے استقبال کےلیے جمال و خوبصورتی اختیار کیا کرتے تھے ، اس کی نظیر لڑائ اورجنگ میں لڑائ کےلیے آلات حرب پہننا اورجنگ میں ریشمی کپڑے پہننے اور اس میں تکبر کرنا یہ اس وقت محمود اورقابل ستائش ہوگا جب یہ اعلاء کلمۃ اللہ اوردین اسلام کی نصرت اوردشمنان اسلام کے غیظ غضب کے لیے ہو ۔

جمال مذموم : وہ جمال اورخوبصورتی مذموم ہوگي جودنیا اورریاست وسرداری کے حصول اور فخرو تکبر اورشہوات کا وسیلہ ہو اوربندے کا مقصد اورغایت خوبصورتی وجمال بن جاۓ ، کیونکہ بہت سارے لوگوں میں یہی چيز پائ جاتی ہے اوران کی یہی تمنا ہوتی ہے ۔

اوروہ خوبصورتی وجمال نہ تومحمود اور نہ ہی مذموم ہوگی جس میں مندرجہ بالا مقاصد اوراوصاف نہ پاۓ جائيں ۔

مقصد یہ کہ حدیث دوعظیم اصول پرمشتمل ہے ایک تومعرفت اور دوسرا سلوک ہے ۔

تواللہ تعالی کی معرفت اس جمال وخوبصورتی سے ہوگي جس کی مثل کوئ بھی نہیں ، اوراللہ تعالی کی عبادت بھی اس حسن وجمال سے ہوگي جسے اللہ تعالی پسند فرماتا ہے اوروہ اقوال و اعمال اوراخلاق کا جمال وخوبصورتی ہے جو کہ اللہ تعالی کوپسند ہے ، تواللہ تعالی کی عبادت کرنے والے پرواجب اورضروری ہے کہ وہ اپنی زبان کوسچ اوردل کواخلاص اورمحبت اوراطاعت اورتوکل کے زیورسے حسین جمیل اورخوبصورت بناۓ ۔

اوراپنے اعضاء کواطاعت اوراپنے بدن کولباس پہن کراس کی نعمتوں کا ظاہرکر کے اوراسے نجاست اورمیل کچیل اورگندے بالوں سے پاک صاف کرکے اور:ختنہ کروا کر اور ناخن کاٹ کر خوبصورت اورجسین جمیل بناۓ ۔

تواللہ تعالی کواس کے وصف جمال سے پہچانے اوراس کی عبادت بھی جمال اورخوبصورتی کےساتھ کرے جو کہ اس کی شرع اور دین ہے ، تواس حدیث نے دوعظیم قاعدے معرفت اورسلوک جمع کردیے ہیں ۔ الفوائد ( 1 / 185 ) ۔

کہاں اس حدیث کے عظیم معانی اورکہاں خواہشات کے پیروکاروں کی گمراہی وضلالت جو کہ اپنے برے اورغلط مقاصدکوپورا کرنے کے لیے منحرف قسم کی سوچ اورسمجھ رکھتے ہیں اور اس حدیث سے سمجھتے ہیں ۔

ہم اللہ تعالی سے عافیت کے طلبگارہیں ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پررحمتیں برساۓ ، آمین یارب العالمین ۔

واللہ تعالی اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد