منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

زكاۃ ميں تاخير اور زکاۃ کی رقم سے سرمايہ كارى كرنے كا حكم

67578

تاریخ اشاعت : 07-05-2014

مشاہدات : 4126

سوال

ميرے مال كى سالانہ زكاۃ معقول رقم بنتى ہے ( مثلا دس ہزار مصرى پاؤنڈ بنتا ہے ) پہلے یہ کرتا تھا کہ زكاۃ فقراء يا فقراء كے ليے ہسپتال كى تعمير ۔۔۔۔الخ ميں صرف كرتا تھا، ليكن اس وقت ميرى سوچ ہے كہ ميں زكاۃ كا يہ مال تين يا چار برس كے ليے كسى علیحدہ اسلامی بینك اكاؤنٹ میں ركھوں جس پر سالانہ آمدن ہو، ايسا كرنے كا مقصد يہ ہے كہ ايك مناسب رقم جمع ہو جائے جس سے ايك وقت حاضر سے ہم آہنگ جدید مركز قائم كيا جائے جس كا ہدف منافع نہيں بلكہ دعوت و تبليغ ہو اور اس ميں تحقیق كے ليے جديد ترين وسائل استعمال كيے جائيں اور يہ مركز مسلمانوں اور ايسے افراد كے ليے خاص ہو جو دوسرے اديان كے ساتھ مقارنہ كے وقت اپنےدين ميں شكوك شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اور ميرى سالانہ زكاۃ بھى آئندہ اسى مركز کی سرگرمیوں ميں صرف ہو، اس كے ساتھ ساتھ دیگر مسلمانوں سے بھى تعاون ملتا رہے، تو كيا شرعى طور پر ايسا كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم آپ كى دينى غيرت اور مسلمانوں كى حالت زار کا خیال رکھنے پر آپ كے ممنون ہيں، ليكن آپ جو كچھ كرنا چاہتے ہيں وہ شرعيت مطہرہ كے موافق نہيں، كيونكہ جب سال مكمل ہونے پر زكاۃ واجب ہو چكى ہو تو اسے فورى نكالنا واجب ہو جاتا ہے، اور اسے ادائيگى كا امكان ہوتے ہوئے اس ميں تاخير كرنى جائز نہيں ہے۔

چانچہ زكاۃ ايك عبادت ہے جسے ادا كرنے كے ليے مسلمان شخص كو اس كى مقدار، وقت، اور جنس ميں زكاۃ كے احكام کی پابندی كرنا لازم ہے، اور جب زكاۃ كى ادائيگى كا وقت آ چكا ہو تو اس ميں تاخير جائز نہيں، ليكن اگر اس كى تاخير كا كوئى قابلِ قبول شرعی عذر ہو تو پھر تاخير جائز ہے۔

دائمی فتوى كميٹى كے علمائے كرام سے مندرجہ ذيل سوال دريافت كيا گيا:

جب زكاۃ كى ادائيگى كا وقت جمادى الاول ہو تو كيا ہم اسے بغير كسى عذر كے رمضان المبارك تك مؤخر كر سكتے ہيں ؟

كميٹى كے علمائےكرام كا جواب تھا:

سال پورا ہو جانے كے بعد بغير كسى شرعى عذر كے زكاۃ نكالنے ميں تاخير كرنى جائز نہيں، مثلا: اگر سال پوار ہونے كے وقت فقراء نہ ہوں، يا ان تك پہنچانے كى طاقت و استطاعت نہ ہو، اور يا پھر مال موجود نہ ہو، وغيرہ اسباب [تو ان اسباب كى بنا پر زكاۃ ميں تاخير كرنى جائز ہے]

ليكن رمضان المبارك كى بنا پر زكاۃ ميں تاخير كرنى جائز نہيں، ليكن اگر قليل سى مدت ہو تو پھر جائز ہے، مثلا نصف شعبان گزر جانے كے بعد سال پورا ہو رہا ہے تو پھر اس ميں رمضان المبارك تك تاخير كرنے ميں كوئى حرج نہيں۔انتہى

دیکھیں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 398 )

جس شخص پر زكاۃ واجب ہو چكى ہے، يا وہ ادارے اور تنظیمیں جو زكاۃ فقراء و مساكين تك پہنچانے كى ذمہ دار ہيں ان كے ليے زكاۃ كے اموال ميں تجارت جائز نہيں، ان پر مستحق افراد تک اس كى ادائيگى واجب ہے، اور اگر سرمايہ كارى کرنی ہے تو زكاۃ كے علاوہ کسی دوسرے مال سےكريں۔

دائمی فتوى كميٹى كے علماء كرام سے ايسى رفاہی تنظيم كے متعلق دريافت كيا گيا جو اپنے اموال سے سرمايہ كارى كرنا چاہتى ہے۔

تو كميٹى كے علماء نے جواب ديا:

اگر سوال ميں مذكورمال زكاۃ كا ہو تو جيسے ہى تنظيم كے پاس مال آئے اُسے فورا زكاۃ كے شرعى مصارف ميں خرچ كرنا واجب ہے، ليكن اگر وہ مال زكاۃ كا نہيں تو پھر تنظيم كى مصلحت كى خاطر اس سےسرمایہ کاری كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ ايسا كرنے سے تنظيم اور اس کے معاونین كو اپنے اہداف پورے كرنے كے ليے زيادہ نفع حاصل ہو گا۔انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 403 - 404 )

اور كميٹى كے علماء سے يہ بھى دريافت كيا گيا:

كيا عالمى رفاہی ادارے كے ليے زكاۃ كے ان اموال ميں سرمايہ كارى كرنا ممكن ہے جو بعض اوقات بینکوں میں اسوقت تک رکھے جاتے ہیں جب تک انکی ضرورت نہیں ہوتی پھر انہیں نکلوا کر خرچ کیا جاتا ہے، اور سرمایہ کاری کی وجہ سے مصارف زکاۃ پر خرچ کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ بھی نہیں ہوگی،کیونکہ يہ سرمايہ كارى ایسی جگہوں پر ہوگی جہاں سے ضرورت كے وقت حاصل كرنا ممكن ہو، اور یہ جگہیں مکمل طور پر قابلِ اعتماد اور تحقیق شدہ ہیں، ہم يقينى طور پر اس كى ضمانت نہيں دے سكتے كہ کہیں اس میں حرمت يا [سودکا]شبہ نہ آجائے، اس بنیاد پر كہ يہ رفاہی ادارہ بذاتہ كوئى ايك يا كئى ايك اشخاص پر مشتمل نہيں، بلكہ يہ ادارہ ايك فرضی شخصیت ہے جو کہ مستقل طور پر قائم ہے، چنانچہ اسکے ملازمین اسلام اور مسلمانوں كى خير و بھلائى كے ليے اپنى رائے اور خیالات کے مطابق كوشش اور جد و جہد كرتے ہيں ؟

تو كميٹى كے علمائے كرام كا جواب تھا:

" تنظيم کا نمائندہ زكاۃ كے مال كو سرمايہ كارى ميں استعمال نہيں کرسکتا، کیونکہ زکاۃ کی رقم کو شرعی نصوص کے مطابق مستحقین پر تقسیم کرنا واجب ہے؛ كيونكہ زكاۃ كا مقصد فقراء اور ضرورتمند افراد كى حاجت اور مقروض افراد كے قرض كى ادائيگى ہے؛ اور اسکی وجہ یہ بھی ہے كہ زكاة كے مال كى سرمايہ كارى كرنے سے ہو سكتا ہے مذکورہ مصلحتیں پوری نہ ہوں، يا پھر مستحق افراد كى ضروریات پوری کرنے میں تاخیر ہوجائے" انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 454 - 455 ).

دوم:

اور فقراء كے ليے ہسپتال تعمير كرنے يا بعض رفاہی منصوبوں كے ليے زكاۃ كا مال دينے كے متعلق سوال نمبر (39211) كے جواب ميں يہ بيان ہو چكا ہے كہ:

زكاۃ كے كچھ شرعى مصارف ہيں جنہيں اللہ سبحانہ و وتعالى نے اپنے اس فرمان ميں بيان كيا ہے:

( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )

ترجمہ: زكاۃ تو صرف فقراء، مساكين، اور اس پر كام كرنے والے، اور تاليف قلب ميں، اور غلام آزاد كرانے ميں، اور قرض داروں كے ليے، اور اللہ كے راستے ميں، اور مسافروں كے ليے ہے، يہ اللہ تعالى كى طرف سے فرض كردہ ہے، اور اللہ تعالى علم والا اور حكمت والا ہے ۔ التوبۃ / 60

لہذا ان مصارف كے علاوہ كہيں اور زكاۃ صرف کرنا جائز نہيں ، اس ليے آپ كو زكاۃ وقت پر ادا كرنى چاہيے لہذا جب زكاۃ كى ادائيگى كرنا ممكن ہو تو اس ميں آپ كے ليے تاخير كرنا جائز نہيں ہے، اسی طرح زکاۃ کے مال سے سرمايہ كارى نہيں كى جاسكتى، نہ تو تجارتى اور منافع بخش منصوبوں ميں، اور نہ ہى دعوتى منصوبوں ميں۔

اور جس دعوتى منصوبے كى سوچ آپ ركھتے ہيں اس ميں آپ مسلمانوں کو قائل کریں اور زكاۃ كے علاوہ کسی اور مد سے رقم حاصل كر كے اس منصوبہ كى تكميل كريں۔

اللہ تعالى ہميں اپنے محبوب اور پسندیدہ كام كرنے كى توفيق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب