جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

كرنسى كى قيمت تبديل ہونے كى صورت ميں قرض كى ادائيگى

سوال

ميں نے اپنے ايك دوست كو كچھ سعودى ريال كى صورت ميں قرضہ حسنہ ديا، اور اب ادائيگى كے وقت مصرى كرنسى كى قيمت سعودى ريال كے مقابلہ ميں كم ہو چكى ہے، اور ميرا وہ دوست قرض ليتے وقت كے حساب سے مصرى كرنسى ميں قرض واپس كرنا چاہتا ہے، جس كا معنى يہ ہوا كہ مجھے اپنے اصل مال سے كم رقم ملےگى، اور قرض اتنا ہى واپس كيا جاتا ہے جتنا ليا جائے، اور ميں نے ايسا كرنے سے انكار كيا اور اس سے كہا كہ:
ميرے بھائى ميں نے آپ كو سعودى ريال ديے تھے كہ آپ مجھے واپس بھى اتنے ہى سعودى ريال ہى دينگے جتنے لے رہے ہو، اور قرض جتنا ليا جائے اتنا ہى واپس ہوتا ہے، اور ميرے ليے يہى كافى ہے كہ ميں اتنى مدت تك ان پيسوں كو كسى حلال كام ميں لگا كر نفع حاصل كرنے سے محروم رہا ہوں اور ميں نے آپ كو قرضہ حسنہ صرف اللہ تعالى كى رضا كے ليے ديا تھا كہ آپ اس سے اپنى تجارت صحيح كريں، اور آپ نے اس كى تجارت كى اور پھر ما شاء اللہ نفع بھى حاصل كيا، اور اللہ نے اس ميں بركت دى، تواس نے ايسا كرنے سے انكار كر ديا.
اب مجھے يہ بتايا جائے كہ اسلام كا حكم اس سلسلے ميں كيا ہے، كيا اس پر سعودى ريال ميں ہى قرض واپس كرنا واجب ہے يا نہيں ؟
اور اگر جواب يہ ہو كہ اسے سعودى ريال ميں ہى قرض واپس كرنا واجب ہے، اور اس نے يہ فتوى قبول كرنے سےانكار كر ديا تو اللہ تعالى كے ہاں اس كا حكم كيا ہوگا ؟
اور كيا وہ مال جو اس كے پاس رہتے ہوئے كم ہوا ہے ميں اللہ تعالى كے ہاں روز قيامت اس كا مطالبہ كرونگا يا نہيں ؟
اس سلسلے ميں آپ فتوى دے كر عند اللہ ماجور ہوں، كيونكہ قرض كى ادائيگى آپ كے فتوى پر موقوف ہے، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

جس شخص نے كسى دوسرى كرنسى ميں قرضہ ليا ہے اس پر واجب ہے كہ وہ اسى كرنسى ميں قرض واپس كرے جس ميں اس نے قرض ليا تھا نہ كہ وہ قرض ليتے وقت اس كرنسى كى قيمت ميں ادائيگى كرے؛ بلكہ معاہدے ميں يہ ذكر كرنا بھى جائز نہيں كہ حاصل كردہ كرنسى كے علاوہ كسى اور كرنسى ميں قرض كى ادائيگى كى جائيگى، اس ليے جائز نہيں كہ مثلا ايك شخص كسى دوسرے سے سعودى ريال لے اور اس كى قيمت لگا كر واپس مصرى كرنسى كرے.

اور بغير كسى زبردستى كے آپس كى رضامندى سے كرنسى كى قيمت كا فرق دينا جائز ہے، فقہ اكيڈمى اور ہمارے بہت سے محقق علماء كرام كے فتاوى جات ميں يہى بيان ہوا ہے.

چنانچہ قرار نمبر ( 42 ) ( 4 / 5 ) ميں كرنسى كى قيمت كے تغير و تبدل ميں كے سلسلے ميں بيان ہوا ہے كہ:

اسلامى فقہ اكيڈمى كى مجلس كے پانچويں كانفرنس ميں جو كہ 1 - 6جمادى الاول 1409 ہجرى الموافق 10 – 15 ديسمبر 1988ميلادى كويت ميں منعقد ہوئى كا بيان ہے كہ:

" اركان اور ماہرين كى جانب سے كرنسى كى قيمت ميں تغير و تبدل كے موضوع پر پيش كردہ بحوث كو ديكھنے، اور اس كے متعلق مناقشہ كى سماعت، اور اكيڈمى كى قرار نمبر 21 ( 9 / 3 ) كا مطالعہ كرنے كے بعد تيسرے سيشن ميں يہ قرار پايا كہ:

كاغذ كى كرنسى كو نقدى شمار كيے جاتا ہے، جس ميں مكمل قيمت كى صفت پائى جاتى ہے، اور اسے سود، زكاۃ اور سلم اور باقى سارے احكام ميں سونے اور چاندى كے مقرر كردہ شرعى احكام حاصل ہيں، مجلس نے درج ذيل قرار پاس كى ہے:

ثابت كردہ قرضہ جات كى كسى بھى كرنسى ميں ادائيگى كا اعتبار مثل كے ساتھ ہوگا نہ كہ قيمت كے ساتھ؛ كيونكہ قرض كى واپس كا مطالبہ اس كى مثل سے كيا جاتا ہے، اس ليے اگر كسى كے ذمہ قرض ہو چاہے وہ كسى بھى مصدر سے تعلق ركھے اسے ريٹ كے ساتھ مربوط كرنا جائز نہيں.

ديكھيں: مجلۃ المجمع عدد نمبر ( 5 ) جلد نمبر ( 5 ) صفحہ ( 1609 ).

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميرے ايك دينى بھائى ـ حسن ـ نے مجھے دو ہزار تونسى دينار بطور قرض ديے، اور ہم نے اس كا معاہدہ بھى لكھا، جس ميں جرمنى كرنسى كے حساب سے اس كى قيمت درج كى گئى، اور كچھ مدت گزرنے تقريبا ايك برس بعد كے بعد جرمنى كرنسى كى قيمت زيادہ ہوگئى، تو اس طرح ہوا كہ اگر ميں اسے جرمنى كرنسى ميں واپس كروں تو معاہدے ميں بيان كردہ دو ہزار تونسى دينار سے تين سو زيادہ دينے پڑتے ہيں، تو كيا مجھے قرض دينے والے كے ليے زيادہ لينا جائز ہے، يا كہ يہ سود شمار ہوگا... ؟

اور خاص كر جب كہ وہ اس كى ادائيگى جرمنى كرنسى ميں چاہتا ہو تا كہ جرمنى سے گاڑى خريد سكے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" قرض خواہ حسن كو وہى رقم لينى چاہيے جو اس نے آپ كو دى تھى يعنى دو ہزار تونسى دينار، الا يہ كہ آپ اسے زيادہ لينے كى اجازت ديں تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا لوگوں ميں بہتر وہ ہے جو ادائيگى ميں اچھا ہے "

اسے امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنى صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے، اور امام بخارى رحمہ اللہ نے ان الفاظ ميں روايت كيا ہے:

" يقينا لوگوں ميں سے بہتر وہ ہے جو ادائيگى ميں بہتر ہے "

رہا مذكورہ معاہدہ تو اس پر عمل نہيں كيا جائيگا، اور اس ميں درج شدہ كچھ بھى لازم نہيں كيونكہ يہ عقد غير شرعى ہے، شرعى نصوص اس پر دلالت كرتى ہيں كہ قرض كى بيع تقاضا كے وقت كے مثل ريٹ سے جائز ہے ليكن اگر مقروض شخص احسان اور بدلہ دينے كے اعتبار سے زيادہ دينا پسند كرے، اس كى دليل ابھى اوپر بيان كردہ حديث ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 414 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ اس جيسے ايك سوال كے جواب ميں كہتے ہيں:

" واجب يہ ہے كہ وہ آپ كو اتنے ڈالر ہى ادا كرے جتنے آپ نے اسے قرض ديے تھے؛ كيونكہ اس نے آپ سے يہى قرض ليا تھا، ليكن اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ اگر آپ نے آپس ميں يہ فيصلہ كيا تھا كہ وہ آپ كو مصرى كرنسى ميں قرض واپس كريگا تو پھر اس ميں كوئى حرج نہيں.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:

" ہم اونٹ درہموں ميں فروخت كرتے اور پھر اس كے بدلے دينار لے ليتے، اور دينار ميں فروخت كرتے تو اس كے بدلے ميں درہم لے ليتے ہيں تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:

" اس ميں كوئى حرج نہيں كہ اگر تم اس دن كے ريٹ كے مطابق لو اور جب تك تم عليحدہ نہ ہوئے اور تمہارے مابين كوئى چيز تھى "

تو يہ نقدى بيع كسى دوسرى جنس كے ساتھ ہے، جو كہ سونے كى چاندى كے ساتھ فروخت كے زيادہ مشابہ ہے، اس ليے اگر آپ اور وہ اس پر متفق ہوئے ہيں كہ وہ آپ كو ان ڈالروں كے بدلے مصرى كرنسى ديگا تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ ڈالر كا ريٹ مصرى كرنسى ميں اس وقت كا ہو جب آپ دونوں متفق ہوئے تھے.

مثلا اگر دو ہزار ڈالر اب اٹھائيس سو مصرى كرنسى كے برابر ہيں تو آپ كے ليے اس سے تين ہزار مصرى كرنسى لينا جائز نہيں، ليكن يہ جائز ہے كہ آپ اس سے اٹھائيس سو مصرى كرنسى لے ليں، اور يہ بھى جائز ہے كہ آپ اس سے دو ہزار ڈالر لے ليں، يعنى آپ اس سے آج كا ريٹ يا اس سے بھى كم ريٹ ليں، يعنى اس سے زيادہ مت ليں؛ كيونكہ اگر آپ زيادہ ليتے ہيں تو آپ اس كا نفع لے رہے ہيں جو آپ كى ضمان ميں نہيں ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے نفع سے منع فرمايا ہے جو ضامن نہ ہو، ليكن اگر آپ اس سے كم ليتے ہيں تو يہ آپ كا اپنا كچھ حق لينا ہوگا، اور باقى مانندہ كو معاف كرنا اور اس سے برى الذمہ ہونا ہے، اور اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 414 - 415 ).

اور اگر فريقين ميں ايك اس حكم كى مخالفت كرتا ہے تو وہ دونوں كرنسيوں كے فرق كى قيمت ناحق لے رہا ہے، جو كہ حرام ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! تم اپنے آپس كے مال ناجائز طريقے سے مت كھاؤ، مگر يہ كہ تمہارى آپس كى رضامندى سے ہو خريد و فروخت، اور اپنے آپ كو قتل مت كرو، يقينا اللہ تعالى تمہارے ساتھ مہربانى كرنے والا ہے النساء ( 29 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب