منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

لندن دھماكوں كے بعد پردہ كرنے واليوں كو اذيت كى بنا پر پردہ اتارنا كيسا ہے ؟

69432

تاریخ اشاعت : 07-04-2008

مشاہدات : 16343

سوال

پچھلے برس سات جولائى كے دھماكوں كے بعد بہت سارى مسلمان عورتوں كو برطانيں ميں اذيت كا سامنا پڑ رہا ہے، اور بعض اوقات تو شدت پسندوں كى جانب سے قتل كى حد تك بھى بات پہنچ جاتى ہے، تو كيا وہاں مقيم مسلمان عورت كے ليے ان حالات ميں اذيت سے بچنے اور محفوظ رہنے كے ليے پردہ اتارنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس طرح كے حالات اور مصائب پيش آنے والے حالات كے متعلق عام فتوى جارى كرنے سے قبل يہ تحيقيق ضرور كرنا ضرورى ہے كہ واقعى ايسى مكمل صورت اور حالات بن چكے ہيں، اور معاملہ ضرورت كى اس حد تك پہنچ چكا ہے جو ايسے حرام كام كے ارتكاب كو مباح كر دے جس كى حرمت پر سب كا اجماع ہے، يا معاملہ اس حد تك نہيں پہنچا ؟

ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ معاملہ اس حد تك نہيں پہنچا، بلكہ يہ بعض بے وقوف اور شدت پسندوں كے تصرفات ميں سے ہے، اور اس ملك يہ عام معاملہ نہيں، بلكہ جيسا كہ بعض نے تعبير كيا ہے كہ يہ تو صرف كچھ تنگياں اور اذيت دينا ہے، جس سے اس طرح كے بڑے حكم پر عمل پيرا ہونے سے تنازل اختيار كرنے كى بجائے كسى اور طريقہ سے بھى بچنا ممكن ہے.

اس ليے مسلمانوں كو چاہيے كہ وہ اپنے شخصى حقوق كا مطالبہ كريں كہ وہ اس ملك كے ايك شہرى ہيں اور ا نكى حفاظت حكومت كى ذمہ دارى ہے، اور انہيں كسى دوسرے شخص كے جرم ميں سزا نہيں دينى چاہيے، نہ تو ان مسلمانوں كو اپنے دينى شعار سے پيچھے ہٹنا چاہيے، اور نہ ہى وہ اپنى تميز اور پہچان اورعزت سے پيچھے ہٹيں.

اور يہ جاننا ضرورى ہے كہ پردہ اور حجاب ايك ايسى چيز ہے جو اللہ سبحانہ و تعالى نے مسلمان عورتوں پر فرض كيا ہے، جس كى فرضيت قرآن كريم اور سنت نبويہ ميں صحيح احاديث، اور باوجود مختلف مذاہب اور مدارس كے اجماع امت سے ثابت ہے، اور اس سے كوئى بھى مذہب اور مسلك عليحدہ نہيں، اور نہ ہى كسى فقيہ نے اس كى مخالت كى ہے، امت كے پچھلے سارے ادوار اور ايام ميں اسى پر عمل رہا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے الاحزاب ( 59 ).

اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ).

اور مسلمان كا يہ حق ہے كہ وہ اپنے دينى فرائض پر عمل پيرا ہو، اور اپنے پروردگار اور اللہ مالك المك كى رضا و خوشنودى كے ليے اس كے احكام پر عمل كرے، اور كسى بھى مادى يا معنوى دباؤ كے تحت آكر اسے اس حكم سے سرمو انحراف كرنے پر كوئى بھى اسے مجبور نہيں كر سكتا.

اور آپ كو اس قوم پر تجب كرنا اور حيران ہونا چاہيے جو حقوق انسانى كى آزادى اور حفاظت كا دعوى كرتے اور نعرے لگاتى ہے، وہ دوسروں كو حقوق كو ايسے اعمال كى بنا پر سلب كرتے ہيں جن اعمال سے ساتھ ان كا كوئى تعلق تك نہيں ہوتا.

رہا مسئلہ كہ اذيت و تكليف پہنچنے كے باعث مسلمان عورت كا پردہ اور حجاب نہ كرنا اور اسے اتار دينا، اس كے متعلق ہم اجمالا درج ذيل نقاط ميں كلام كرينگے:

ـ كسى بھى مسلمان عورت كے ليے ايسے ملك ميں رہائش اختيار كرنى جائز نہيں جہاں اسے اپنے دينى شعار كو ظاہر كرنا ممكن نہ ہو، اس بنا پر ان ممالك ميں رہنے والى ہر مسلمان عورت جو اپنے دينى شعار اور علامت و احكام كو ظاہر كرنے پر قادر نہيں اسے كسى ايسے ملك كى طرف ہجرت كر لينى چاہيے جہاں اسےاپنے دينى شعار كو مكمل آزادى كے ساتھ ظاہر كرنے كا موقع ملے.

ـ ليكن اگر وہ ہجرت نہيں كر سكتى، تو اس طرح كے تكليف دہ حالات ميں مسلمان عورت پر واجب ہوتا ہے كہ وہ اپنے گھر ميں ہى ٹكى رہے، باہر نہ نكلے، خاص كر جب اس كے پاس اس كا ولى اور ذمہ دار جو اس كى كفالت اور خرچ كا ذمہ دار موجود ہو، اور ا سكا خيال ركھے، اور اس كى ضروريات مكمل كرتا ہو، اسے فتنہ و خرابى كے خوف سے جو اسے لاحق ہو سكتا ہے گھر سے باہر نہيں نكلنا چاہيے، صرف شديد ضرورت كى بنا پر ہى نكلے.

ـ اگر كوئى كفالت كرنے والا ہو تو عورت كا ملازمت، يا تعليم كے ليے گھر سے نكلنا ضرورت ميں شامل نہيں ہوتا، اس كے ليے اپنى تعليم كو آئندہ سميسٹر تك ملتوى كرنا ممكن ہے، يا پھر وہ ملازمت سے رخصت لے لے، حتى كہ حالات سدھر جائيں اور درست ہو جائيں، كيونكہ اس طرح كى زيادتياں ان ايام ميں كسى بھى حادثہ پيش آنے پر ضرور ہونگى، پھر كچھ ايام كے بعد معاملات اور حالات اپنى اصل حالت پر واپس آجائينگے.

ـ ليكن جب عورت ضرورت كى بنا پر باہرنكلے اور اسے خطرہ ہو كہ اسے كوئى اذيت اور نقصان پہنچائيگا، تو اذيت كو ديكھا جائيگا كہ اگر وہ اذيت قابل برداشت ہو مثلا سب و شتم اور گالى، يا پھر صرف تيكھى نظروں سے بعض لوگوں كا ديكھنا،تو اس عورت كو پردہ اتارنے كى اجازت نہيں دى جائيگى، كيونكہ اس طرح كى اذيت قابل برداشت ہے.

اور يہ باطل اور غلط ہے كہ عورت كو كہا جائے: سڑك اور بازار ميں كلمات اور آوازيں كسنے كى بنا پر ہى تم پردہ اتار دو، ايسا صحيح نہيں، بلكہ اس عورت كو صبر و تحمل سےكام لينا چاہيے، اور يہ تو اس كے ايمان كى آزمائش اور امتحان ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

كيا لوگوں نے يہ گمان كر ليا ہے كہ ا ن كے صرف اس دعوى پر كہ ہم ايمان لائے ہيں، ہم انہيں بغير آزمائے ہوئے ہى چھوڑ ديں گے ؟

البتہ تحيقيق ہم نے تو ان سے پہلے لوگوں كو بھى خوب جانچا، يقينا اللہ تعالى انہيں بھى جان لےگا جو سچ كہتے ہيں، اور انہيں بھى معلوم كر لےگا جو جھوٹے ہيں العنكبوت ( 2 - 3 ).

چنانچہ اس عورت كو اللہ كى راہ ميں پہنچنے والى اذيت و تكليف اور مذاق پر صبر و تحمل سے كام لينا چاہيے، اور اس ميں نيت يہ ركھے كہ اللہ تعالى اسے دين پر ثابت قدم رہنے اور اس پر عمل كرنے كے بدلے ميں جو اجروثواب تيار كر ركھا ہے وہ حاصل ہو گا.

جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تمہارے بعد ايسا وقت اور دور آنے والا ہے جس ميں دين پرعمل كرنے والے كے ليے تم ميں سے پچاس شہيدوں جتنا ثواب ہو گا "

اسے امام طبرانى نے ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع ميں صحيح قرار ديا ہے.

ـ اسى طرح اذيت كو اس طرح بھى ختم اور دور كيا جا سكتا ہے كہ وہ اكيلى باہر نہ جائے، بلكہ اپنے كسى مرد اور ولى كو ساتھ ليكر نكلے، يا پھر مجموعہ ميں اكٹھى ہو كر جائيں، تا كہ بے وقوف قسم كے لوگ اس اكيلى كو نہ پا سكيں.

ـ ليكن اگر اسے ايسى اذيت كا سامنا ہو جو ناقابل برداشت ہے مثلا زدكوب كرنا، يا قتل، يا اس كى عزت و عصمت سے كھيلنے كا خدشہ ہو اور وہ باہر جانے پر مجبور ہو اس حالت ميں پورے اور مكمل پردہ ميں سے كچھ تخفيف كرنا جائز ہے، اور وہ اسكارف پہن كر سر اور گردن چھپا لے، تو اسے صرف اتنا پردہ اتارنا چاہيے جو اسے ضرر اور اذيت سے بچا سكے، كيونكہ ضرورت كے مطابق ہى ہونا چاہيے.

يا پھر جو لوگوں ميں حجاب عام ہے اس كى بجائے كوئى اور چيز پہن لے جس سے پردہ ہو، اس سے ہو سكتا ہے مسلمان عورت كا مظہر ان لوگوں كى نظر ميں ايسا بن جائے جو اسے اذيت سے محفوظ ركھے، اور غير مسلم عورتوں كے موسم سرما كے لباس ميں ايسے لباس بھى موجود ہيں جو غالبا يا اكثر ان اعضاء كو ڈھانپ ليتے ہيں جن كا شرعا پردہ كرنا مطلوب ہے.

ـ چنانچہ اگر ان سے زبردستى ان كا حجاب اور پردہ اتارا جائے تو اس ميں اس كى آزمائش اور ابتاء ہے، ان شاء اللہ وہ اس ميں ماجور ہو گى، ليكن اسے چاہيے كہ جيسے ہى يہ اكراہ اور زبردستى ختم ہو جائے تو فورا پردہ كرنا شروع كر دے.

اس ليے فتوى حالات كے مطابق ہونا چاہيے تا كہ غير مسلم معاشروں ميں اسلامى شناخت ختم ہو كر نہ رہ جائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب