جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كيا ہر ركعت ميں دونوں سورتيں پڑھنى جائز ہيں ؟

69915

تاریخ اشاعت : 06-03-2007

مشاہدات : 6580

سوال

كيا نمازى نماز باجماعت يا انفرادى نماز كى ايك ہى ركعت ميں دو سورتيں پڑھ سكتا ہے، يہ علم ميں ركھيں كہ ميں ہر ركعت سورۃ اخلاص پڑھنا پسند كرتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نمازى چاہے امام ہو يا مقتدى كے ليے سورۃ فاتحہ كے بعد ايك يا دو سورتيں پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن بعض اوقات امام كو اس كا جواز بيان كرنے كے ليے ايسا كرنا چاہيے، ليكن وہ نمازيوں كو لمبى نماز نہ پڑھائے جيسا كہ فرضى اور نفلى نماز ميں ايسا كرنا جائز ہے.

بہت سى نمازوں ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سورۃ فاتحہ كے بعد دو سورتوں كا پڑھنا ثابت ہے، اور ان سورتوں كو نظائر كے نام سے موسوم كيا گيا ہے، اس سلسلے ميں كئى ايك احاديث ہيں:

عمرو بن مرۃ رحمہ اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ ميں نے بو وائل سے سنا وہ بيان كر رہے تھے كہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى كے پاس ايك شخص آيا اور كہنے لگا:

ميں رات ايك ہى ركعت ميں مفصل سورۃ كى تلاوت كى تو انہوں نے فرمايا:

يہ تو تيزى سے شعر پڑھنا ہے ؟ ميں ان نظائر كو جانتا ہوں جن كو ملايا كرتے تھے، انہوں نے سور مفصل كى بيس سورتوں كا ذكر كيا جن ميں سے دو سورتيں ملا كر ہر ركعت ميں پڑھا كرتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 743 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 822 ).

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے پر باب باندھتے ہوئے كہا ہے: ايك ہى ركعت ميں دو سوتيں جمع كرنا "

مفصل سورۃ ق سے ليكر سورۃ الناس تك ہيں.

الھذ: تيزى سے قرآت كرنا.

علقمہ اور اسود رحمہ اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ ايك شخص ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كے پاس آ كر كہنے لگا: ميں سور مفصل ايك ركعت ميں پڑھتا ہوں، تو انہوں نے جواب ديا:

كيا يہ شعر كى طرح تيزى اور ردى كھجور كى طرح نثر ہے؟

ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك ركعت ايك جيسى نظائر دو سورتيں پڑھا كرتے تھے، نجم اور الرحمن ايك ركعت ميں، اور اقتربت الساعۃ اور الحاقۃ ايك ركعت ميں، سورۃ الطور اور الذاريات ايك ركعت ميں، اور اذا وقعت الواقعۃ اور سورۃ نون ايك ركعت ميں، اور سال سائل اور سورۃ النازعات ايك ركعت ميں، اور ويل للمطففين اور سورۃ عبس ايك ركعت ميں سورۃ المدثر اور المزمل ايك ركعت ميں ھل اتى على الانسان اور لا اقسم بيوم القيمۃ ايك ركعت ميں، اور عم يتسالون، اور المرسلات ايك ركعت ميں اور سورۃ الدخان اور اذا الشمس كورت ايك ركعت ميں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1396 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

الدقل: ردى كھجور كو كہتے ہيں.

اور ايك حديث ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قيام الليل كى ايك ركعت ميں سورۃ البقرۃ، النساء اور آل عمران پڑھى، جيسا كہ حذيفہ رضى اللہ تعالى عنہ نے بيان كيا ہے اور اسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم حديث نمبر ( 772 ) ميں روايت كيا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

انسان كے ليے سورۃ فاتحہ كے بعد دو يا تين سورتيں پڑھنا جائز ہے، اور ايك سورۃ پر اقتصار كرنا بھى جائز ہے، يا پھر وہ ايك سورۃ كو دو حصوں ميں تقسيم كر سكتا ہے، يہ سب جائز ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا عمومى فرمان ہے:

چنانچہ تمہارے ليے جتنا قرآن پڑھنا آسان ہو اتنا پڑھو المزمل ( 20 ).

اور اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" پھر آپ كے ليے جو آسان ہو قرآن كى قرآت كرو"

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 13 ) سوال نمبر ( 500 ).

شيخ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

بعض اوقات نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك ہى ركعت ميں دو يا زيادہ سورتيں جمع كر كے پڑھا كرتے تھے

ديكھيں: صفۃ صلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم ( 103 - 105 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اس ميں اس كے متعلقہ احاديث ذكر كے ان كى تخريج كى ہے، لھذا اس كا مطالعہ كريں.

دوم:

اور رہا مسئلہ ہرركعت ميں قرآت كے بعد سورۃ اخلاص پڑھنا ايك صحابى سے ثابت ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے برقرار ركھا جو كہ سوال كے اصل ہر ركعت ميں دو سورتيں پڑھنے كى دليل ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے ايك شخص كو ايك پارٹى كا امير بنا پر بھيجا اور وہ انہيں نماز پڑھانے ميں قرآت كے بعد سورۃ اخلاص پڑھ كر قرآت ختم كرتا، جب وہ واپس آئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ذكر كيا چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اسے پوچھو وہ ايسا كيوں كرتا ہے ؟

چنانچہ انہوں نے اس سے دريافت كيا تو وہ كہنے لگا: اس ليے كہ يہ اللہ و رحمن كى صفت ہے، اور ميں اسے پڑھنا پسند كرنا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اسے بتادو كہ اللہ تعالى بھى اس سے محبت كرتا ہے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6940 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 813 ).

يہ حديث اس فعل كے جواز كى دليل ہے، رہا استحباب تو يہ مستحب ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ فعل نہيں كيا، اور نہ ہى اس پر مداومت كى، اور سب سے بہترين طريقہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب