منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

الكحل پينے كى حرمت

7327

تاریخ اشاعت : 05-07-2008

مشاہدات : 6114

سوال

اسلام ميں الكحل پينا حرام كيوں ہے، چاہے قليل مقدار ہى كيوں نہ ہو، اور اس موضوع كے متعلق قرآن مجيد كيا كہتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بلاشك و شبہ الكحل نشہ آور چيز ہے، اور اس مواد ميں ايسى چيز پائى جاتى ہے جو عقل خراب كر ديتى ہے، اور حديث شريف ميں آيا ہے:

" ہر نشہ آور چيز خمر ہے، اور ہر خمر حرام ہے "

خمر عقل پر پرد ڈالنے والى چيز كو شراب و خمر كہا جاتا ہے.

چنانچہ اگر معاملہ ايسا ہى ہے تو پھر يہ حرام شمار ہوگى اور خمر كے معانى ميں شامل ہو گى جو لذت يا تسلى كى بنا پر نوش كى جاتى ہے، اللہ تعالى نے اسے حرام كيا ہے، اور پھر اللہ تعالى نے اس كے متعلق بتايا ہے كہ يہ گناہ ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

لوگ آپ سے شراب اور جوئے كا مسئلہ پوچھتے ہيں، آپ كہہ ديجئے ان دونوں ميں بہت بڑا گناہ ہے اور لوگوں كو اس كا دنياوى فائدہ بھى ہوتا ہے، ليكن ان كا گناہ اس كے نفع سے بہت زيادہ ہے .

اور جب گناہ موجود ہے، اور وہ بڑا اور زيادہ ہے تو پھر يہ حرام ہے، اور بلاشك يہ الكحل عقل اور جسم كے ليے بھى مضر اور نقصاندہ ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے ہر وہ چيز حرام كى ہے جو بدن اور عقل كے ليے نقصاندہ ہو، اور حواس خمسہ كو تباہ كرے، اور ہر وہ چيز جس ميں انسان كو نقصان اور ضرر ہو اس كو كرنا جائز نہيں.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور تم اپنے آپ كو قتل مت كرو .

اور فرمان بارى تعالى ہے:

اور اپنے ہاتھوں كو ہلاكت ميں مت ڈالو .

اور اس ليے بھى كہ يہ مال و دولت ضائع كرنے كا باعث ہے اور اس ميں اسراف و فضول خرچى بھى ہے، چنانچہ يہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں داخل ہوتا ہے:

بلاشبہ فضول خرچ شيطان كے بھائى ہيں .

رہا مسئلہ الكحل پينے كى بجائے كسى اور ميں استعمال كرنا، تو بعض اوقات يہ جائز ہو گى، جبكہ اس كى مقدار بہت قليل ہو، اور لباس اور بدن كو لگانے والى خوشوجات ميں ملائى گئى ہو، كيونكہ يہ خوشبو ميں تعفن پيدا ہونے سے محفوظ ركھتى ہے، اور لباس كو اس تعفن سے محفوظ ركھتى ہے، تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس كا كسى بھى حالت ميں پينا جائز نہيں ہے.

ماخذ: الشیخ عبداللہ بن جبرین