منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

پھوپھى كى ديكھ بھال كرنے والے بھيتجھے كو پھوپھى كى طرف سے عطيہ دينے كا حكم

74974

تاریخ اشاعت : 19-01-2021

مشاہدات : 7144

سوال

ميرى ايك پھوپھى ہے جو بوڑھى ہو چكى ہے اس كے پاس بہت مقدار ميں مال بھى ہے اور اسے باپ كى وراثت سے جائداد بھى ملى تھى، تقريبا پندرہ برس سے ميرے والد صاحب كى موافقت سے پھوپھى نے مجھے محكمہ ميں اپنے مال اور جائداد كا وكيل مقرر كر ركھا ہے، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ ميرى پھوپھى نے بہت ہى محفوظ زندگى بسر كى ہے، نہ تو وہ لكھنا جانتى ہے، اور نہ ہى پڑھ سكتى ہے، اور نہ ہى ميرے تعاون كے بغير اپنے معاملات سرانجام دے سكتى ہے.
ميں جتنے عرصہ اور مدت سے ان كا وكيل رہا ہوں وہ ميرے ساتھ اس طرح لين دين كرتى رہى ہے گويا كہ ميں ہى اس كا اكيلا بيٹا ہوں، دوسرے بھائيوں كے علاوہ صرف ميں ہى اپنى پھوپھى كے سارے معاملات اور زندگى مالى اور معاشى معاملات كى ديكھ بھال كرتا ہوں، ميرے باقى بارہ بھائى ہيں جو صرف پھوپھى كے پاس كبھى كبھار اور وہ بھى صرف دينى يا اجتعاعى تقريبات ميں ہى آتے اور اس سے صلہ رحمى كرتے ہيں.
ميرے والد صاحب فوت ہو گئے ہيں اور اب ميں اور ميرے بھائى ہى اپنى پھوپھى كے شرعى وارث بنتے ہيں، اس كے علاوہ كوئى اور وارث نہيں ميں نے اپنے دوسرے بھائيوں كے علم ميں لائے بغير ہى پھوپھى سے اس كى اكثر جائداد اپنے اور اپنى بہن اور ايك بھانجھے كے نام كرانے كى اجازت مانگى ہے اور وہ بھانجھا حقيقت ميں ميرى بيٹى كا خاوند يعنى ميرا داماد ہے، كيونكہ وہ ميرى پھوپھى كى ديكھ بھال ميں ميرا معاون رہا ہے، پھوپھى نے اس پر موافقت كرتے ہوئے جائداد ميرے اور ميرى بہن اور بھانجھے كے نام كر بھى دى ہے، ليكن بعد ميں بلآخر ميرے بھائيوں كو اس كا علم ہوگيا تو ان سب نے مجھے لعنت ملامت كرنا شروع كردى اور مجھ پر الزام لگانے لگے كہ ميں نے پھوپھى كو نقصان پہنچايا ہے، اور پھوپھى كا اپنے معاملات كى ديكھ بھال نہ كر سكنے كو اپنے ليے فرص اور موقع غنيمت جانتے ہوئے ميں نے يہ سب كچھ كيا ہے، اور اسے زندگى كے امور كا ادراك بھى نہيں ہونے ديا، اور اس كى املاك كى قيمت كا بھى علم نہيں ہونے ديا اور ميں نے اپنے نام وكالت نامہ كو غلط طور پر استعمال كيا ہے، اس كے علاوہ انہوں نے مجھ پر يہ الزام بھى عائد كيا ہے كہ ميں نے اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى بھى مخالفت كى ہے.
تو ميرا سوال يہ ہے كہ آيا واقعى ہبہ كے متعلق ميں نے شرعى حكم كى مخالفت كى ہے، يہ علم ميں رہے كہ يہ سب كچھ پھوپھى كے علم اور اس كى موافقت كے ساتھ ہوا ہے ؟
اور كيا ميرے دوسرے بھائيوں كو اس ہبہ پر كوئى اعتراض كرنے كا حق حاصل ہے ؟
آپ سے گزارش ہے كہ مجھے كوئى ايسى نصيحت كريں جو مجھے اللہ تعالى كى حدود سے تجاوز كرنے سے باز ركھے، اگر ميں غلطى پر ہوں تو ميں اس كا تدارك اور تصحيح كر سكوں، اور وقت نكلنے سے قبل اس سے توبہ و استغفار بھى كر لوں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كا اپنى پھوپھى كى ديكھ بھال كرنا اور اس كے معاملات سرانجام دينا نيك اعمال ميں شامل ہوتا ہے جس سے آپ اللہ تعالى كا قرب حاصل كر كے اپنے اجروثواب ميں زيادتى كر كے اپنے نيكيوں كے ترازوں كو اور بھارى كرتے رہے، ليكن آپ كا يہ عمل ايك شرط كے ساتھ مشروط تھا كہ اگر آپ نے يہ عمل اللہ كى رضا كى خاطر كيا ہو، اور اس ديكھ بھال كے عوض ميں معاوضہ لينے ميں بھى كوئى حرج نہيں.

اسے تنگ كر كے يا حيلہ بازى كے ليے اس سے زائد كا حصول آپ كے ليے حلال نہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ اے ايمان والو! تم آپس ميں ايك دوسرے كا مال باطل اور ناحق نہ كھاؤ، ہاں يہ ہے كہ وہ تمہارى آپس كى رضامندى سے خريد و فروخت ہو ﴾ النساء ( 29 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسلمان شخص كى رضامندى كے بغير اس كا مال حلال نہيں "

مسند احمد حديث نمبر ( 20172 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1459 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

جس طرح كہ آپ ـ اور اس پھوپھى ـ كے ليے ورثاء كو نقصان اور ضرر دينا حلال نہيں، چاہے وہ ہبہ كے ذريعہ ہو، يا زندگى ميں مال وقف كر كے يا موت كے بعد كسى غير وارث شخص كے ليے وصيت كر كے؛ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" نہ تو خود نقصان اٹھاؤ، اور نہ ہى كسى دوسرے كو نقصان اور ضرر پہنچاؤ "

اسے امام احمد رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے، اور امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2341 ) ميں روايت كيا ہے، اور صحيج ابن ماجہ ميں علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح قرار ديا ہے.

ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن اگر كسى اجنبى كے ليے ايك تہائى كى وصيت كر كے ورثاء كو نقصان پہنچانا چاہے تو وہ اس نقصان دينے كے ارادہ سے گنہگار ہوگا، اور كيا اگر اس كے اقرار كے ليے ذريعہ وصيت ثابت ہو گئى تو كيا اسے رد كر ديا جائيگا يا نہيں ؟

ابن عطيہ رحمہ اللہ نے امام مالك رحمہ اللہ سے روايت كيا ہے كہ: 

اسے رد كر ديا جائيگا.

اور ايك قول يہ بھى ہے كہ: يہ امام احمد كے مسلك كا مہذہب ہے " انتہى.

ديكھيں: جامع العلوم وا لحكم ( 1 / 305 ).

اور نواب صديق حسن خان رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس نے بھى اپنے ورثاء كو نقصان پہنچانے كے ليے كچھ وقف كيا تو اس كا يہ وقف باطل ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے اس كى اجازت نہيں دى، بلكہ اللہ تعالى نے تو ايسے صدقہ جاريہ كى اجازت دى ہے جس كا ثواب صدقہ كرنے والے كو ملتا رہے، نہ كہ اس كى اجازت دى ہے جس كا گناہ جارى ہو، اور مستقل عذاب اور سزا ہوتى رہے.

اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے تو اپنى كتاب عزيز قرآن مجيد ميں عمومى اور خصوصى طور پر كسى نقصان دينے سے منع فرمايا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى عمومى طور پر نقصان دينے سے منع كرتے ہوئے حديث ميں فرمايا ہے:

" دين اسلام ميں ہے كہ نہ تو خود نقصان اٹھاؤ، اور نہ ہى كسى دوسرے كو نقصان دو " انتہى.

ديكھيں: الروضہ النديۃ ( 2 / 154 ) .

دوم:

آپ كے سوال ميں ہے كہ آپ كے بھائيوں نے آپ كے خلاف باتيں كرتے ہوئے يہ بات بھى كى ہے كہ: " پھوپھى كى عدم اہليت كو موقع اور فرصت جانا " !

اگر تو ان كى يہ بات صحيح ہے كہ آپ كى پھوپھى مال ميں تصرف كرنے كى اہل نہ تھى، وہ اس طرح كہ اگر عقل مند نہ تھى، يا پھر بے وقوف ہونے كى بنا پر مال ضائع كرتى تھى، تو پھر اس نے جو كچھ اپنے مال ميں سے آپ كو ہبہ كيا ہے وہ شرعى طور پر باطل ہے، اور آپ كے ليے اسے اپنى ملكيت بنانا حلال نہيں؛ كيونكہ اسے اپنے مال ميں تصرف كرنے كى اہليت ہى حاصل نہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" تمام معاہدے اور باتيں عقل و دانش اور تميز كے ساتھ مشروط ہيں اس ليے جو شخص بھى تميز نہ كر سكتا ہو، اور اسے عقل نہ ہو اور بے وقوف ہو تو شريعت كے لحاظ سے اصل ميں اس كى كلام ہى معتبر نہيں ہوگى جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلا شبہ بدن ميں ايك ايسا ٹكڑا ہے جب يہ ٹكڑا صحيح ہو جائے تو سارا جسم صحيح ہو جاتا ہے، اور جب يہ ٹكڑا خراب ہو جائے تو سارا بدن ہى خراب ہو جاتا ہے، خبردار وہ ٹكڑا دل ہے "

تو اگر دل كى عقل و دانش ہى زائل ہو چكى ہو جس كے ساتھ وہ بات كرتا ہے اور معاملات ميں تصرف كرتا ہے تو پھر يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ اس كے ليے امر اور نہى يا ملكيت كا اثبات يا زائل كيا جائے، اور يہ شارع كے فيصلے كے ساتھ ساتھ عقلى طور پر بھى معلوم ہے...

معاہدے اور دوسرے تصرفات قصد كے ساتھ مشروط ہيں جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" سب اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے "

اور ميں نے يہ قاعدہ اور اصول اپنى كتاب " بيان الدليل على بطلان التحليل " بيان كيا ہے، اور وہاں يہ فيصلہ كيا ہے كہ ہر وہ لفظ جو متكلم كے بغير قصد و ارادہ كے غلطى اور زبان كے اكھڑنے اور بے عقلى سے نكلے تو اس پر كوئى حكم مرتب نہيں ہوتا " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 33 / 107 ).

سوم:

ليكن اگر آپ كى پھوپھى عقل مند اور ذہين ہے تو پھر اس كا اپنے مال ميں ہبہ يا صدقہ يا كوئى اور تصرف كرنا صحيح ہے.

شيخ عبد اللہ بن جبرين حفظہ اللہ تعالى ہمارے اس مسئلہ كے مطابق مسئلہ كے حكم ميں كہتے ہيں:

" خاوند كے ليے اپنى زندگى اور صحت ميں جائز ہے كہ وہ اپنى بيوى كے صبر و تحمل يا بہتر خدمت، يا اسے جو تكليف آئى ہے اس كے مقابلہ ميں مال يا مہر ميں سے جو چاہے ہديہ كر دے جبكہ اس ميں دوسرے ورثاء كو نقصان اور ضرر نہ ہوتا ہو، اور نہ ہى اس كى حد مال كا چوتھائى وغيرہ حصہ ہوتا ہو.

اور اسى طرح بيوى كے ليے جائز ہے كہ وہ اپنے خاوند كو اپنے مال يا مہر سے جو چاہے دے سكتى ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

﴿ تو اگر وہ ( بيوياں ) تمہيں اس مہر ميں سے كچھ اپنى مرضى اور رضامندى كے ساتھ كچھ ہبہ كر ديں تو اسے ہنسى خوشى كھالو ﴾.

اور حالت مرض ميں ايسا كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ وارث كے ليے وصيت شمار ہو گى " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 29 ).

اور آپ كے بھائيوں كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ آپ كى پھوپھى كے ليے اپنے بھتيجوں كو عطيہ دينے ميں عدل و انصاف كرنا واجب اور ضرورى نہيں كيونكہ عطيہ دينے ميں عدل و انصاف كرنا تو اولاد كے متعلق حكم ہے، ليكن اولاد كے علاوہ كسى اور كو عطيہ دينے ميں عدل كرنا واجب نہيں.

شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" انسان كے ليے ورثاء ميں سے كسى ايك كو اپنى صحت و تندرستى ميں دوسرے پر افضليت دينى جائز ہے، ليكن وہ اپنى اولاد ميں ايسا نہيں كر سكتا، كيونكہ اولاد ميں سے ايك كو دوسرے پر افضليت دينى جائز نہيں " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 30 ).

جواب كا خلاصہ يہ ہوا كہ:

اگر تو آپ كى پھوپھى عقل مند اور ذہين تھى اور اس نے اپنے ارادہ و رضامندى كے ساتھ آپ كے مجبور كيے يا آپ كى طرف سے كسى حيلہ كے بغير آپ كو كچھ مال ہبہ كيا ہے، اور اس نے ايسا كرنے ميں اپنے ورثاء كو نقصان پہنچانے كا ارادہ و قصد نہيں كيا تو يہ ہبہ صحيح ہے، اور شريعت كے مخالف نہيں.

ليكن اگر وہ عقل مند نہيں يا پھر اس نے يہ ہبہ اپنى خوشى و رضامندى كے بغير كيا ہے، يا اس نے ايسا كر كے ورثاء كو نقصان اور ضرر پہنچانے كا ارادہ كيا ہے تو يہ ہبہ حرام ہے اور صحيح نہيں، اور سارا مال اس كى ملكيت ميں ہى باقى ہے.

اور اس حالت ميں آپ كو يہ حق حاصل ہے كہ آپ نے جو اس كى خدمت كى ہے، اور اس كے مال ميں جو لين دين كے امور چلائے ہيں اس كے مقابلہ ميں اجرت و مزدورى لے سكتے ہيں، ليكن يہ اجرت اور مزدورى كام كے مطابق ہونى چاہيے نہ كہ اس ميں مبالغہ ہو.

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب