جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

وقف بكس ضائع ہونے كى صورت ميں ضامن ہونے كا حكم

سوال

وقف كے مال ميں تصرف كرنا جس كے نتيجہ ميں بغير قصد اور ارادہ مال ضائع ہو جائے تو اس كا حكم كيا ہے ؟
جامع مسجد ميں وقف كے ليے چندہ جمع كرنے كا بكس ركھا گيا جو شخص بھى اسے چندہ جمع كرنے كے ليے استعمال كرنا چاہے تو وہ استعمال كے بعد مسجد ميں واپس ركھ دے، ميں نے وہ بكس ليا اور جس مقصد كے ليے وقف كيا گيا تھا اس كے ليے استعمال كيا، ليكن وہ بكس مجھ سے ضائع ہو گيا مجھے مل نہيں سكا، اب ميرے ذمہ كيا لازم آتا ہے، كيا مجھے اس بكس كا نقصان پورا كرنا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو آپ سے يہ بكس كى حفاظت ميں بغير كسى كمى و كوتاہى سے ضائع ہوا ہے تو پھر آپ اس كے ضامن نہيں، ليكن اگر آپ نے اس كى حفاظت كرنے ميں كمى اور كوتاہى كى ہے تو آپ اس كے ضامن ہيں اور بكس اور اس ميں جو رقم تھى اس كا نقصان پورا كرنا ہوگا، اگر اس ميں رقم ہو، كيونكہ آپ اس بكس كے امين تھے، اور امين اس وقت ضامن ہوتا ہے جب وہ اس ميں كسى قسم كى كوئى زيادتى كا مرتكب ہو، يا اس ميں كوئى كمى و كوتاہى كى ہو.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" مشہور يہ ہے كہ ہاتھ كى تقسيم دو طرح كى ہے: ايك امانت والا ہاتھ اور دوسرا ضامن ہونا.

امانت يہ ہے كہ: نيابتا كسى كى كوئى چيز يا مال اپنے پاس ركھنا، نہ كہ بطور ملكيت، مثلا امانت ركھنا، يا عاريتا ركھنا، يا اجرت پر لينا، اور شريك، مضاربت كے طريقہ سے تجارت كرنے والا، اور وقف كا نگران، اور جسے كوئى وصيت كى گئى ہو.

اور ضامن يہ ہے كہ: بطور ملكيت يا مال اپنے پاس جمع كرنا، يا جمع كرنے والے كى مصلحت كے ليے، مثلا خريدار، اور خريدارى كى قيمت اپنے قبضہ ميں كرنے والا، اور جس كے پاس رہن ركھا گيا ہو، اور غاصب، اور مالك، اور قرض لينےوالا.

اور امانت كا حكم يہ ہے كہ: جس كے پاس امانت ركھى گئى ہو وہ اس ميں كمى و كوتاہى اور زيادتى كرنے كى صورت ميں ضامن ہوگا.

اور ضامن كا حكم يہ ہے كہ: مال جس كے پاس مال بطور ملكيت، يا اس نے اپنى مصلحت كے پيش نظر مال ركھا ہو تو وہ ہر حال ميں اس كا ضامن ہوگا، حتى كہ اگر وہ كسى آسمانى آفت كى بنا پر بھى ضائع ہو جائے تو بھى ضامن ہوگا، يا وہ اس كے مالك كو واپس كرنے سے عاجز ہو تو بھى ضامن ہوگا، جيسا كہ تلف ہونے اور تلف كرنے كى صورت ميں ضامن ہوتا ہے.

تو اس طرح مالك اپنى ملكيت ميں جو كچھ بھى ہوگا اس كا ضامن ہے، اور وہ اس كے ہاتھ كے نيچے ہے، اور جب وہ كسى دوسرے كے ہاتھ چلى جائے تجارت كے ساتھ، يا اس كى اجازت سے، مثلا خريدارى كى قيمت اپنے قبضہ ميں لينے والا، يا مالك كى اجازت كے بغير مثلا غصب كردہ چيز، تو اس كا ضامن وہى ہے جس كے پاس ہوگى، اور اگر يہ كسى معاہدہ، يا بطور امانت، يا عاريتا، كسى اور كے ہاتھ چلى جائے تو اس كا ضامن بھى مالك ہو گا " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 28 / 258 - 259 ).

اس بنا پر جب آپ نے يہ بكس اسى مقصد كے ليے استعمال كيا جس مقصد كے ليے يہ وقف كيا گيا تھا، اور آپ نے اس كى حفاظت كرنے ميں كسى بھى قسم كى كوئى كمى اور كوتاہى نہيں كى اور اس كا خيال ركھا تو پھر آپ اس كے صامن نہيں ہونگے، اور اگر آپ ايسا كريں كہ اس بكس كے بدلے ميں اور بكس لا كر ركھ ديں، يا اس سے بھى اچھا اور بہتر بكس لائيں تو يہ بہت بہتر اور اچھا ہے، اور آپ كو اس كا اجروثواب بھى حاصل ہوگا اور اس ميں آپ شكوك و شبھات اور اپنے خلاف قيل و قال سے بھى بچ جائينگى.

كيونكہ يہ بكس چندہ جمع كرنے كے ليے ہے، اور اس كے ليے آپ كى كوئى زيادہ رقم بھى خرچ نہيں ہوگى، اور آپ كو ثواب بھى حاصل ہوتا رہے گا، اس ليے آپ كوئى اور بكس لا كر ركھ ديں، ليكن يہ لازم نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب