جمعرات 16 شوال 1445 - 25 اپریل 2024
اردو

مشقت كے ساتھ روزہ ركھنے كا اجروثواب

سوال

كيا اللہ تعالى كے ہاں روزے كا ثواب ايك جيسا ہى ہے، يا كہ روزے دار كى مشقت برادشت كرنے كے حساب سے ہو گا ؟
كيونكہ كچھ لوگ ٹھنڈے علاقے ميں روزے ركھتے جہاں پياس كا احساس نہيں ہوتا، اور كچھ لوگ سخت گرم علاقوں ميں رہ كر روزے ركھتے ہيں، ميں يہاں روزے كى حالت ميں دوسرے اعمال صالحہ كى بات نہيں كرتا، بلكہ صرف روزے كے اجروثواب كى بات كر رہا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر توعبادت كے ساتھ مشقت لازم ہے، يعنى اس طرح كہ اس مشقت كو برداشت كيے بغير وہ عبادت كى ہى نہيں جا سكتى، تو پھر جتنى زيادہ مشقت ہو گى اجروثواب بھى اتنا ہى زيادہ ہو گا.

اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:

" يقينا تجھے تيرى تھكاوٹ اور تيرے خرچ كے مطابق اجروثواب ملے گا "

اسے امام حاكم نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1116 ) ميں صحيح قرار ديا ہے اور اس حديث كى اصل صحيحين ميں ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:

قولہ صلى اللہ عليہ وسلم: " تيرى تھكاوٹ، يا فرمايا: تيرے خرچ كے حساب سے "

اس سے ظاہر ہوتا ہے كہ عبادت ميں اجووثواب اور فضيلت كى كثرت تھكاوٹ اور خرچ زيادہ ہونے سے ہوتى ہے، اور وہ تھكاوٹ مراد ہے جس كى شريعت مذمت نہيں كرتى، اور اسى طرح خرچ بھى وہ جو قابل مذمت نہ ہو " انتہى.

اور قاعدہ و اصول يہ ہے كہ: مشقت كے حساب سے اجروثواب ہر چيز ميں نہيں، بلكہ كچھ اعمال خفيف ہيں ليكن ان كا اجروثواب بہت زيادہ ہے.

زركشى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عمل جتنا بھى زيادہ اور مشقت والا ہو وہ اس عمل سے افضل ہے جو اس جيسا نہ ہو، اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں ہے:

" تيرا اجروثواب تيرى تھكاوٹ كے حساب سے ہے "

اور كئى ايك صورتوں ميں چھوٹا اور قليل سا عمل بھى زيادہ عمل سے افضل ہوتا ہے، ان صورتوں ميں سے كچھ درج ذيل ہيں:

ايك تو يہ ہے كہ: مسافر شخص كے ليے نماز قصر كرنا پورى نماز ادا كرنے سے افضل ہے.

ـ ايك بار نماز باجماعت ادا كرنا اكيلے پچيس بار نماز ادا كرنے سے افضل ہے.

ـ اور يہ بھى ہے كہ: فجر كى دو ركعت چھوٹى ادا كرنا لمبى دو ركعت ادا كرنے سے افضل ہے.

ـ قربانى كر كے ا سكا كچھ گوشت كھا كر باقى صدقہ كرنا سارى قربانى صدقہ كرنے سے افضل ہے.

ـ نماز ميں چھوٹى مكمل سورۃ پڑھنا بڑى سورۃ كا كچھ حصہ پڑھنے سے افضل ہے، چاہے وہ لمبى ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى غالبا عادت يہى تھى. انتہى بتصرف.

ديكھيں: المنثور فى القواعد ( 2 / 415 - 419 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب