جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

قیامت کی چھوٹی اور بڑی نشانیاں

سوال

قیامت کی چھوٹی اور بڑی کون کون سی نشانیاں ہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

قیامت کے دن کی علامات اور نشانیاں ایسی چیزیں ہیں جو قیامت سے پہلے رونما ہوں گی اور ان کا مطلب یہ ہو گا کہ قیامت بالکل قریب آ گئی ہے، ان نشانیوں کی چھوٹی اور بڑی نشانیوں میں تقسیم کی گئی ہے، چنانچہ ان میں سے چھوٹی علامات عمومی طور پر ایسی ہیں جو قیامت سے بہت پہلے رونما ہوں گی، اور انہی میں سے کچھ ایسی بھی ہیں جو رونما ہو کر گزر چکی ہیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ بار بار رونما ہوں ، تو کچھ ایسی ہیں جو رونما ہونے کے بعد مسلسل مشاہدے میں آ رہی ہیں، اور کچھ ایسی ہیں جو ابھی تک رونما نہیں ہوئیں، لیکن وہ بالکل بعینہٖ رونما ہوں گی جیسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا۔

جبکہ بڑی نشانیاں ایسی ہیں جو قیامت کے بالکل قریب رونما ہوں گی اور ان کے بعد قیامت قائم ہونے میں بہت ہی تھوڑا وقت رہ جائے گا۔

قیامت کی چھوٹی نشانیاں بہت زیادہ ہیں، متعدد احادیث میں ان کا تذکرہ ملتا ہے، ہم ان احادیث کا ذکر کیے بغیر ایک ہی سیاق میں انہیں بیان کریں گے کیونکہ ہر ایک نشانی کی حدیث ذکر کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے، تاہم اگر کوئی اس حوالے سے تفصیلی مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے اس موضوع پر خاص اور معتمد کتابوں کے مطالعہ کی رہنمائی کریں گے، مثلاً: { القيامة الصغرى} از الشیخ عمر سلیمان اشقر، اور اسی طرح کتاب: {أشراط الساعة} از الشیخ یوسف وابل۔

قیامت کی چند چھوٹی نشانیاں:

  1. نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت۔
  2. نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات۔
  3. بیت المقدس کی فتح۔
  4. فلسطین کے شہر عمواس میں رونما ہونے والا طاعون ۔
  5. دولت کی فراوانی اور زکاۃ کے مستحقین معدوم ہونا۔
  6. فتنوں کا ظہور پذیر ہونا، انہی فتنوں میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت، جنگ جمل اور صفین، خوارج کا رونما ہونا، واقعہ حرہ، قرآن کریم کو مخلوق کہنے کا فتنہ شامل ہے۔
  7. جھوٹے داعیان نبوت کا ظہور، انہی میں مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی بھی شامل ہیں۔
  8. حجاز میں بہت بڑی آگ کا رونما ہونا، یہ آگ ساتویں ہجری کے درمیان میں سن 654 ہجری کو لگی تھی اور بہت بڑی مقدار میں تھی، جن لوگوں کے زمانے میں یہ آگ لگی تھی انہوں نے اسے تواتر کے ساتھ بیان کیا ہے، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "ہمارے زمانے میں سن 654 ہجری کو مدینہ نبویہ کی مشرقی جانب حرے کے عقب میں آگ لگی جو کہ بہت بڑی تھی، شام اور دیگر علاقوں کے لوگوں نے اسے تواتر کے ساتھ بیان کیا ہے، اور مجھے بھی اہل مدینہ میں سے اس نے بتایا جس نے یہ آگ دیکھی تھی۔"
  9. امانت کا خیال نہ رکھنا، اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ذمہ داریاں نااہل لوگوں کو دی جائیں گی جو انہیں کما حقہ نبھا نہیں سکیں گے۔
  10. علم قبض ہو جائے گا اور جہالت عام ہو جائے گی، علم قبض اس طرح ہو گا کہ اہل علم فوت ہو جائیں گے، جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
  11. زنا عام ہونا۔
  12. سودی لین دین پھیل جانا۔
  13. ہر سمت آلات موسیقی عام ہونا۔
  14. شراب نوشی کی کثرت۔
  15. بکریوں کے چرواہے عمارتیں بنانے کا مقابلہ کریں گے۔
  16. صحیح بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق لونڈی اپنی مالکن کو جنم دے گی۔ اس حدیث کے مفہوم کے متعلق متعدد اقوال ہیں، تاہم ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ موقف اپنایا ہے کہ: اولاد میں نافرمانی بہت زیادہ ہو جائے گی کہ اولاد اپنی والدہ کے ساتھ ایسے برتاؤ کرے گی جیسے آقا اپنی لونڈی کے ساتھ اہانت اور گالم گلوچ والا برتاؤ کرتا ہے۔
  17. قتل عام ہونا۔
  18. زلزلے کثرت سے آنا۔
  19. زمین دھنسنے، چہرے مسخ ہونے اور پتھروں کی بارش کے واقعات رونما ہونا۔
  20. خواتین کا باریک اور تنگ لباس زیب تن کرنا۔
  21. مومن کو سچے خواب آنا۔
  22. جھوٹی گواہی عام ہونا اور سچی گواہی چھپانا۔
  23. عورتوں کی تعداد زیادہ ہونا۔
  24. جزیرہ عرب کا دوبارہ سر سبز و شاداب ہونا۔
  25. دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ رونما ہونا۔
  26. درندوں اور جمادات کا انسانوں سے باتیں کرنا۔
  27. رومیوں کی تعداد بڑھنا اور مسلمانوں سے ان کی جنگ۔
  28. قسطنطنیہ فتح ہونا۔

قیامت کی بڑی نشانیاں: ان سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدنا حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان کی ہیں، جو کہ دس علامات ہیں:

  1. دجال
  2. عیسی بن مریم کا دوبارہ نازل ہونا
  3. یاجوج ماجوج کا ظہور پذیر ہونا
  4.  تین جگہوں پر زمین دھنسنا پہلا : مشرق میں
  5.  دوسرا مغرب میں ۔
  6. تیسرا جزیرہ عرب میں۔
  7. دھواں نکلنا۔
  8. سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔
  9. ایک جاندار کا رونما ہونا۔
  10. آگ کا نکلنا جو کہ لوگوں کو میدان محشر کی طرف اکٹھا کرے گی۔

یہ سب علامات مسلسل رونما ہوں گی، ایک کے رونما ہونے پر دوسری اس کے فوری بعد ظاہر ہو گی ۔

صحیح مسلم میں سیدنا حذیفہ بن اسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس آئے اس وقت ہم باتیں کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم کیا باتیں کر رہے ہو؟) ہم نے کہا کہ: قیامت کا ذکر کر رہے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ دس نشانیاں اس سے پہلے نہیں دیکھ لو گے۔ تو آپ نے ذکر کیا دھوئیں کا، دجال کا، زمین کے جانور کا، سورج کے مغرب سے نکلنے کا، عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے دوبارہ نازل ہونے کا، یاجوج ماجوج کے رونما ہونے کا، تین جگہ خسف کا یعنی زمین کا دھنسنا ایک مشرق میں، دوسرا مغرب میں، تیسرا جزیرہ عرب میں۔ اور ان سب نشانیوں کے بعد ایک آگ پیدا ہو گی جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی انہیں محشر کی طرف لے جائے گی۔

اور ایسی کوئی صریح نص نہیں ہے جن میں ان علامات کی ترتیب کا ذکر ہو، اس ترتیب کو مختلف نصوص سے کشید کیا جاتا ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:

کیا قیامت کی بڑی نشانیاں ترتیب کے ساتھ رونما ہوں گی؟

تو انہوں نے جواب دیا:
"قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے کچھ کی ترتیب تو معلوم ہے، جبکہ کچھ غیر مرتب ہیں ان کی ترتیب کا علم نہیں ہے، چنانچہ مرتب نشانیاں تین ہیں: عیسی بن مریم کا نازل ہونا، یاجوج ماجوج اور دجال۔ ان میں ترتیب یہ ہو گی کہ پہلے دجال ظہور پذیر ہو گا اور پھر عیسی بن مریم نازل ہوں گے اور پھر یاجوج ماجوج رونما ہوں گے۔

علامہ سفارینی رحمہ اللہ نے اپنی عقیدے کی کتاب میں ان کی ترتیب ذکر کی ہے، تاہم اس ترتیب میں سے کچھ حصہ ایسا ہے جس پر اطمینان قلب ہوتا ہے لیکن کچھ پر قلبی اطمینان نہیں ہوتا، بہ ہر حال ہمیں ترتیب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے، ہمیں تو یہ دیکھنا چاہیے کہ قیامت کی علامات ہمارے لیے بہت اہمیت کی حامل ہیں جیسے ہی یہ رونما ہوں گی تو قیامت بالکل قریب ہو گی، اللہ تعالی نے قیامت کی نشانیاں اس لیے مقرر کی ہیں کہ قیامت کا رونما ہونا بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اس لیے قیامت کے رونما ہونے سے پہلے اس کے متعلق لوگوں کو تنبیہ ہو جائے۔" ختم شد

" مجموع الفتاوى " ( 2 / سوال نمبر: 137 )

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب