منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

كيا اذان سننے سے قبل افطارى كرنى جائز ہے ؟

سوال

كيا اذان شروع ہونے سے كچھ سيكنڈ قبل افطارى كرنى جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ ميں شيعہ كے علاقے ميں رہتا ہوں جن كى اذان بعد ميں ہوتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب سورج كى ٹكيا غروب ہو جائے تو روزے دار كے ليےافطارى كرنى حلال ہے، چاہے مؤذن نے اذان كہى ہو يا نہ كہى ہو، كيونكہ افطارى ميں اعتبار تو سورج غروب ہونے كا ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب رات اس جانب سے آ جائے، اور دن اس طرف سے چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزے دار كا روزہ افطار ہو گيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1954 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1100)

ابن دقيق العيد كہتے ہيں:

اس حديث ميں شيعہ كا رد ہے جو ستارہ ظاہر ہونے كے بعد روزہ افطار كرتے ہيں " انتہى.

ماخوذ از فتح البارى.

بعض مؤذن اذان دينے ميں تاخير كرتے ہيں، اور اذان سورج غروب ہونے كے كچھ دير كے بعد كہتے ہيں، چنانچہ ان كى اذان كا اعتبار نہيں ہوگا، اور اس كا يہ فعل نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كى مخالفت ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ہميں افطارى جلد كرنے پر ابھارا ہے كہ جيسے ہى سورج غروب ہو تو افطارى كر لى جائے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" لوگوں ميں اس وقت تك خير ہے جب تك وہ افطارى جلد كرينگے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1957 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 1098 )

اگر روزے دار كا ظن غالب ہو كہ سورج غروب ہو چكا ہے تو اس كے ليے روزہ افطار كرنا جائز ہے، اس ميں يقين كى شرط نہيں، بلكہ ظن غالب ہى كافى ہے.

چنانچہ جب روزے دار كا غالب گمان ہو كہ سورج غروب ہو چكا ہے تو اس كے افطارى كرنے پر اس كے ذمہ كچھ لازم نہيں آتا.

ليكن اگر سورج غروب ميں ہونے ميں شك ہو تو پھر روزہ افطار كرنا جائز نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" روزہ جلد افطار كرنا سنت ہے يعنى: جب سورج غروب ہو جائے تو افطارى كرنے ميں جلدى كرنے چاہيے، چنانچہ يہاں سورج غروب ہونے كا اعتبار ہوگا، نہ كہ اذان كا، اور خاص كر دور حاضر ميں كيونكہ اس وقت لوگ كيلنڈروں پر اعتماد كرتے ہوئے اذن كہتے ہيں، اور پھر اس كيلنڈر كو بھى اپنى گھڑيوں كے مطابق چلاتے ہيں، حالانكہ ان كى گھڑيوں ميں آگے يا پيچھے ہونے كا احتمال ہے.

چنانچہ اگر سورج غروب ہو چكا ہو اور آپ نے ديكھا كہ سورج غروب ہو چكا ہے، ليكن ابھى تك اذان نہيں ہوئى تو آپ روزہ افطار كر سكتے ہيں، اور اگر آپ ديكھيں كہ اذان ہو چكى ہے اور آپ سورج ديكھ رہے تو آپ كے ليے افطارى كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشرق كى جانب اشارہ كيا اور فرمايا جب يہاں سے رات آ جائے، اور مغرب كى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا: جب اس طرف سے دن چلا جائے، اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار روزہ افطار كر لے "

اور اس وقت زيادہ روشنى كى موجودگى كوئى نقصان دہ نہيں ہے، بعض لوگ كہتے ہيں كہ: ہم تو اس وقت تك روزہ نہيں كھولينگے جب تك كہ سورج كى ٹكيہ غائب نہيں ہوتى اور كچھ اندھيرا نہيں چھا جاتا، چنانچہ يہ معتبر نہيں ہے.

بلكہ آپ سورج كى ٹكيہ ديكھيں كہ جب بھى سورج كى ٹكيہ غائب ہو جائے تو روزہ افطار كرنا مسنون ہے.

روزہ جلد افطار كرنا مسنون ہونے كى دليل درج ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:

" لوگوں ميں اس وقت تك خير بھلائى رہے گى جب تك وہ افطارى ميں جلدى كرينگے "

اس سے ہميں يہ علم ہوا كہ جو لوگ افطارى كرنے ميں تاخير سے كام ليتے ہيں حتى كہ ستارے نكل آئيں مثلا رافضى شيعہ لوگ تو وہ حق پر نہيں اور نہ ہى ان ميں خير وبھلائى ہے.

اور اگر كوئى قائل يہ كہے كہ:

كيا ميں غالب گمان كى بنا پر روزہ افطار كر سكتا ہوں ؟

دوسرے لفظوں ميں اسطرح كہ جب ميرے غالب گمان يہ ہو كہ سورج غروب ہو چكا ہے، تو كيا ميں روزہ افطار كر سكتا ہوں ؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

جى ہاں، اور اس كى دليل صحيح بخارى كى درج ذيل حديث ہے:

اسماء بنت ابى بكر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ايك روز آسمان ابرآلود تھا تو ہم نے روزہ افطار كر ليا، اور بعد ميں سورج نكل آيا "

يہ معلوم ہے كہ انہوں نے علم كى بنا پر روزہ افطار نہيں كيا، كيونكہ اگر علم ہونے پر روزہ افطار كرتے تو سورج نہ نكلتا، ليكن انہوں نے تو اس ظن غالب پر روزہ افطار كيا كہ سورج غروب ہو چكا ہے، ليكن جب بادل چھٹے تو سورج نكل آيا " انتہى.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 267 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب