جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

استنجا اور مٹى كے ڈھيلے استعمال كرنا

سوال

ميں سارا دن سكول ميں ہوتا ہوں بيت الخلاء بھى جاتا ہوں ـ استنجا كرنے كے ليے گھر نہيں جا سكتا، كيا ميں وضوء كر كے نماز ادا كرلوں، يا كہ نماز بعد ميں ادا كرو ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب انسان قضائے حاجت كرے تو اس كے ليے يا تو پانى كے ساتھ نجاست سے طہارت حاصل كرنى چاہيے، اور يہ افضل اور اكمل ہے، يا پھر وہ پانى كے بغير كوئى ايسى چيز استعمال كرے جس سے نجاست دور كى جا سكتى ہو، مثلا ٹشو پيپر، يا كپڑا، يا پتھر وغيرہ.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جب انسان قضائے حاجت كرتا ہے تو اس كى تين حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

پانى سے طہارت كرے، يہ جائز ہے، اس كى دليل يہ ہے:

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قضائے حاجت كرتے تو ميں اور ميرے جيسا ايك لڑكا پانى كا برتن اور نيزہ لے كر جاتے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پانى كے ساتھ استنجاء كرتے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 149 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 271 ).

اور تعليل يہ ہے كہ: اس ليے كہ اصل ميں تو يہى كہ نجاست پانى سے زائل ہو، چنانچہ جس طرح آپ اپنے قدم سے نجاست زائل كرتے ہيں اسى طرح اپنى نكلنے والى نجاست بھى پانى سے زائل كريں.

دوم:

پتھر اور ڈھيلے كے ساتھ نجاست سے طہارت حاصل كى جائے، لہذا پتھروں سے استنجا كرنا كفائت كرے گا، اس كى دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان اور عمل ہے.

سلمان فارسى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں تين پتھروں سے كم ميں استنجا كرنے سے منع فرمايا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 262 ).

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عمل كى دليل درج ذيل حديث ہے:

ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پاخانہ كرنے گئے تو مجھے حكم تين پتھر لانے كا حكم ديا، چنانچہ انہوں نے دونوں پتھر لے ليے اور ليد پھينك دى اور فرمانے لگے: يہ پليد ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 155 ).

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے پتھر جمع كيے اور انہيں كپڑے ميں ڈال كر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس لا كر ركھ كے واپس چلا گيا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 154 ).

يہ احاديث پتھر استعمال كرنے كى دليل ہيں.

سوم:

پہلے پتھر اور بعد ميں پانى كے ساتھ طہارت كى جائے.

ميرے علم كے مطابق ايسا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو وارد نہيں، ليكن معنى كے اعتبار سے بلاشك و شبہ يہ طہارت ميں زيادہ كامل ہے.

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 103 - 105 ).

اس بنا پر آپ كے ليے استنجاء نہ كر سكنے كى بنا پر نماز ترك كرنے يا پھر وقت سے مؤخر كرنے ميں كوئى عذر نہيں، كيونكہ آپ ٹشو پيپر وغيرہ استعمال كر كے بھى نجاست سے طہارت حاصل كر سكتے ہيں، ہر انسان كى استطاعت ميں ہے كہ وہ اپنى جيب ميں كچھ ٹشو پيپر ركھے تا كہ بوقت ضرورت استعمال كيے جا سكيں.

پھر سوال ميں يہ واضح نہيں كہ قضاء حاجت كے بعد پانى كے ساتھ استنجاء كرنے ميں كيا مانع ہے، اور خاص كر جب آپ يہ كہہ رہے ہيں: كيا ميں وضوء كر كے نماز ادا كروں يا كہ نماز چھوڑ دوں ؟

اس كا معنى يہ ہوا كہ پانى موجود ہے، اور آپ كے ليے بيت الخلاء ميں پانى لے جا كر استنجاء كرنا ممكن ہے، ليكن اگر آپ ايسا نہ كريں تو آپ كے ليے ٹشو پيپر وغيرہ كے ساتھ استنجاء كرنا ممكن ہے، اس كے بعد آپ وضوء كر كے نماز ادا كر ليں، آپ كے ليے نماز ميں تاخير كرنى جائز نہيں كہ نماز كا وقت ہى نكل جائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب