منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

اسقاط حمل كى وجہ سے آنے والے خون كو نفاس سمجھتے ہوئے روزہ افطار كر ليا

سوال

رمضان المبارك ميں ايك روز ميں تين ماہ سے بھى كم حمل ساقط كرانے ہاسپٹل گئى اور كچھ دعائيں كھائيں، اور اسقاط حمل كے بعد ميں نے كھانا جائز سمجھتے ہوئے كچھ كھا بھى ليا، ليكن گھر واپس آنے كے بعد ميں نے انٹرنيٹ پر اس مسئلہ كو ديكھا تو مجھے علم ہوا كہ مجھ پر تو روزہ اور نماز كى ادائيگى واجب ہے، كيونكہ يہ خون نفاس كا نہيں، چنانچہ ميں نے رمضان كے بعد اس دن كا روزہ ركھا، كيا ميرا يہ عمل كافى ہے يا مجھے اور كچھ كرنا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جان بوجھ كر اسقاط حمل كرانے كا حكم سوال نمبر ( 42321 ) كے جواب ميں بيان كيا جا چكا ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

اسى طرح مختلف مراحل ميں حمل ساقط ہونے كے نتيجہ ميں مرتب ہونے والے احكام بھى سوال نمبر ( 12475 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں آپ ان كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

اگر عورت اپنا حمل ساقط كرائے اور ابھى بچہ كى خلقت مثلا سر اور پاؤں وغيرہ ظاہر نہ ہوئے ہوں، تو اسقاط كى وجہ سے آنے والا خون فاسد ہے، نفاس شمار نہيں ہوگا يہ روزے اور نماز سے منع نہيں كرتا.

ليكن اگر اس ميں انسان كى خلقت ظاہر ہو چكى ہو تو يہ نفاس كا خون ہے، اسے نفاس شمار كرتے ہوئے نماز روزہ ادا نہيں كيا جائيگا، انسان كى خلقت ظاہر ہونے كى كم از كم مدت اكياسى يوم ( 81 ) بنتے ہيں، اس كى وضاحت سوال نمبر ( 37784 ) ميں بيان ہو چكى ہے.

سوم:

اگر آپ نے نفاس كا خون سمجھتے ہوئے روزہ افطار كر ليا اور بعد ميں علم ہوا كہ يہ خون فاسد تھا نفاس نہيں، اور آپ نے نماز اور روزہ كى قضاء بھى كر لى تو آپ كے ذمہ كچھ نہيں، ليكن اگر آپ نے قضاء نہيں كى تو جتنى جلدى ہو سكے اس كى قضاء كر ليں.

اللہ تعالى ہميں اور آپ كو اپنى رضا و خوشنودى اور اطاعت و فرمانبردارى كرنے كى توفيق عطا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب