جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

سودى فوائد مقروض بھائى كو دے كر چھٹكارا حاصل كرنا

81952

تاریخ اشاعت : 07-04-2007

مشاہدات : 6324

سوال

ميں نے بنك ميں سود پر رقم جمع كرا ركھى ہے، ميں اپنے سگے مقروض بھائى كو يہ فوائد دے كر سود سے چھٹكارا حاصل كرنا چاہتا ہوں، ميرا بھائى اپنے خاندان كے اخراجات كا ذمہ دار ہے، يہ علم ميں رہے كہ اس نے اپنى رہائش كے ليے زمين خريد كر مكان بنانے كى ضرروت كى بنا پر اپنے دوستوں سے قرض حاصل كيا تھا، كيونكہ موجودہ رہائش اس كے ليے ناكافى ہے، كيونكہ وہ صرف دو كمروں پر مشتمل ہے، اور اس كے افراد خانہ كى تعداد سات ہے، كيا ميرے ليے ايسا كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

بنك ميں سود پر رقم ركھنى بہت شديد حرام ہے، اور كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو اللہ كا تقوى اختيار كرو، اور جو سود باقى رہ گيا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم پكے اور سچے مومن ہو، اوراگر تم ايسا نہيں كروگے تو پھر اللہ تعالى اور اس كے رسول كے ساتھ لڑائى كے ليے تيار ہو جاؤ، اور اگر تم توبہ كر لو تو اصل مال تمہارے ہى ہيں، نہ تو تم خود ظلم كرو، اور نہ ہى تم پر ظلم كيا جائے البقرۃ ( 278 - 279 ).

اور پھر سودى بنك ميں پيسے جمع جائز نہيں، ليكن اگر مال چورى ہونے كا خوف ہو اور بنك كے علاوہ مال محفوظ كرنے كا كوئى اور طريقہ اور ذريعہ نہ ہو تو پھر بنك ميں ركھے جا سكتے ہيں، اور اس وقت بھى بنك ميں جارى اكاؤنٹ ميں بغير سود اور فائدہ كے ركھے جائيں، كيونكہ ضروريات محظورات كو مباح كر ديتى ہيں، اور ضرورت كے حساب سےاس كا اندازہ ہوگا.

دوم:

اور جو شخص بھى سود كے لين دين ميں مبتلا ہو چكا ہو اس پر واجب اور ضرورى ہے كہ وہ فورى طور پر اللہ تعالى كے سامنے اس سودى لين دين سے توبہ كرے، اور اس گناہ كو فورى طور پر ترك كر دے، اور جو كچھ ہو چكا ہے اس پر ندامت كا اظہار كرتے ہوئے يہ پختہ عزم اور ارادہ كرے كہ آئندہ ايسا كبھى نہيں كريگا، اور اس حرام فوائد سے چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے اسى كسى خير و بھلائى كے كام ميں صرف كر دے، ليكن اسے خود كوئى حق حاصل نہيں كہ وہ اس سودى فوائد سے اپنے ليے كوئى فائد اور نفع حاصل كرے، يا پھر اسے دے جس كا خرچ اس كے ذمہ ہے.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور بنك نے جو نفع اور فائدہ كى صورت ميں مال ديا ہے وہ بنك كو واپس نہ كريں، اور نہ ہى خود كھائيں، بلكہ اسے كسى نيكى اور خير كے كام ميں صرف كر ديں، مثلا فقراء و مساكين پر صدقہ كر ديں، يا پھر عام ليٹرينوں كى مرمت كروا ديں، يا مقروض لوگوں كے قرض كى ادائيگى كر ديں جو اپنے قرض دينے سے عاجز ہيں " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 2 / 407 ).

سوم:

آپ كے ليے جائز ہے كہ آپ اپنے محتاج اور ضرورتمند بھائى كو فوائد كا يہ مال دے كر اس سے چھٹكارا حاصل كريں، ليكن شرط يہ ہے كہ آپ پر اس كا خرچ واجب نہ ہو تو پھر، حتى كہ آپ اس سے نفع لينے ميں كوئى حيلہ نہ كريں، اور اپنے اس مال كو بھى صاف ركھيں جو نفقہ پر خرچ كرينگے.

بھائى كا نفقہ اور اخراجات تين شروط كے ساتھ بھائى كے ذمہ واجب ہوتا ہے:

پہلى شرط:

خرچ كرنے والا شخص جس پر خرچ كيا جا رہا ہے اس كى موت كے وقت اس كا وارث ہو.

ليكن اگر بھائى والد يا اس كے بيٹے كى موجودگى كى بنا پر اپنے بھائى كا وارث نہ بن رہا ہو تو پھر اس كا نفقہ اس پر واجب نہيں ہوتا.

دوسرى شرط:

جس بھائى پر خرچ كيا جا رہا ہے وہ محتاج اور ضرورتمند ہو، اور اتنى آمدن كے حصول سے عاجز ہو جو اس كے ليے كافى ہو.

تيسرى شرط:

خرچ كرنے والے كے پاس اپنا اور بيوى بچوں كے خرچ سے زيادہ رقم ہو.

اگر يہ تين شرطيں پائى جائيں تو بھائى كے ذمہ اپنے بھائى كا خرچ واجب ہو جاتا ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 6026 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

چہارم:

اپنے بھائى كے قرض كى ادائيگى كے ليے آپ فوائد والا مال دے كر فوائد سے چھٹكارا حاصل كر سكتے ہيں اس ميں كوئى حرج نہيں، چاہے اس كا خرچ بھى آپ پر واجب ہو، كيونكہ انسان كے ذمہ اس كے كسى بھى قريبى كا قرض ادا كرنا مطلقا واجب نہيں ہوتا، چاہے وہ باپ ہو يا بھائى يا كوئى اور, اسى ليے زكاۃ كے مسئلہ ميں راجح قول يہ ہے كہ:

والدين اور بھائيوں كا قرض ادا كرنے كے ليے زكاۃ دينا جائز ہے، جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ وغيرہ نے يہى اختيار كيا ہے.

ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ صفحہ نمبر ( 104 ).

مزيد فائدہ كے حصول كے ليے آپ سوال نمبر ( 39175 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

حاصل يہ ہوا كہ: آپ كے ليے يہ سودى فوائد اپنے بھائى كو دينے جائز ہيں تا كہ وہ اپنا قرض ادا كر سكے، چاہے اس كا خرچ آپ كے ذمہ واجب ہوتا ہو يا واجب نہ ہو.

ليكن آپ كا اسے يہ فوائد اس ليے دينا كہ وہ اپنا اور اپنے بيوى بچوں كا خرچ پورا كرے، اور قرض كى ادائيگى كے ليے نہيں تو پھر شرط يہ ہے كہ اس كا خرچ آپ كے ذمہ واجب نہ ہوتا ہو تو پھر آپ اسے دے سكتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب