ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

حج اور عمرہ ميں بال كٹوانے اور منڈوانے كى جائز حد

سوال

ميں نے رمضان المبارك ميں عمرہ كيا اور اپنے بال ايك بار آگے سےاور ايك بار پيچھے اور دائيں بائيں سے كٹوائے... كيا ميرا عمرہ صحيح ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

علماء كرام كے ہاں اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ سارا سر منڈانا بال چھوٹے كرانے سے بہتر اور افضل ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سارا سر منڈانا ثابت ہے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے سر منڈانے والوں كے ليے تين بار اور بال چھوٹے كرانے والوں كے ليے ايك بار دعا فرمائى ہے.

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 18 / 98 ).

اس ميں اختلاف ہے كہ بال منڈانے اور چھوٹے كرانے كى جائز حد كيا ہے، چنانچہ مالكى اور حنبلى كہتے ہيں كہ سر كا كچھ حصہ منڈانا جائز نہيں كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا سارا سر منڈايا تھا، تو يہ منڈانے ميں مطلقا امر كى تفسير ہے، اس ليے اس كى طرف رجوع كرنا واجب ہے.

اور حنفى يہ كہتے ہيں كہ سر كا كچھ حصہ منڈانا جائز ہے، ليكن اگر سر كا چھوتھائى حصہ سے بھى كم منڈائے تو پھر كافى نہيں ہوگا.

اور شافعى حضرات كہتے ہيں كہ: اس ميں كم از كم تين بار مونڈنے يا چھوٹے كرانى كى حد ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" سر كے سارے بال منڈانے يا چھوٹے كرانے لازم ہيں، اور اسى طرح عورت بھى، امام احمد نے يہى بيان كيا ہے، اور امام مالك كا قول بھى يہى ہے، اور امام احمد سے مروى ہے كہ اس كا بعض حصہ كفائت كرے گا...

اور امام شافعى رحمہ اللہ كہتے ہيں: تين بال چھوٹے كرانے بھى كفائت كر جائينگے، اور ابن منذر نے يہ اختيار كيا ہے كہ اتنا بال چھوٹے كرانے كافى ہونگے جسے قصر كا لفظ ديا جاتا ہو، اس ميں ہمارى دليل ارشاد بارى تعالى ہے:

تم اپنے سروں كو منڈانے والے، اور بال چھوٹے كرانے والے .

اور يہ سارے سر كو عام ہے، اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس مطلق امر كى تفسير كرتے ہوئے اپنا سارا سر ہى منڈوايا تھا، اس ليے اس كى طرف رجوع كرنا واجب ہے " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 196 ).

اور مالكى فقہ كى كتاب " التاج والاكليل " ميں ہے:

" اور جو شخص بھى اپنا سر منڈائے يا بال چھوٹے كروائے تو وہ سارے سر كے كروائے، اور اس ميں كچھ بالوں پر اقتصار كرنا كافى نہيں ہوگا " انتہى.

ديكھيں: التاج والاكليل ( 4 / 181 ).

بلاشك و شبہ يہ قول زيادہ محتاط اور احوط ہے، اور يہ كہ آگے اور پيچھے اور دائيں بائيں سے كچھ بال لے كر كاٹنے پر اقتصار كرنا صحيح نہيں جيسا كہ آپ نے كيا تھا.

دوم:

جس شخص نے صرف اپنے كچھ بال كاٹے تو اس كى حالت كو ديكھا جائيگا كہ:

اگر تو اس نے ايسا اہل علم ميں سے كسى كے فتوى دينے كى بنا پر كيا ہے تو اس پر كچھ لازم نہيں آئيگا.

اور اگر اس نے خود ہى ايسا كيا ہے تو اس كا يہ فعل جائز نہيں، اور وہ احرام كى حالت ميں ہى باقى ہے وہ حلال نہيں ہوا، اس كے ليے لازم ہے كہ اب وہ سلا ہوا لباس اتار كر سر كے سارے بال يا تو چھوٹے كروائے يا پھر سارا سر منڈائے، تو اس طرح وہ احرام سے حلال ہو گا، اور اس مدت ميں جہالت كى بنا پر اس نے جو كچھ احرام كى ممنوعات پر عمل كيا ہے اس پر كچھ نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص نے عمرہ كرنے كے بعد ايك طرف بال چھوٹے كروائے اور پھر وہ اپنے اہل و عيال كے پاس چلا گيا تو اسے علم ہوا كہ اس كا فعل صحيح نہيں تھا، تو اس كے ذمہ كيا لازم آتا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر تو اس نے ايسا جہالت كى بنا پر كيا ہے تو وہ اپنا سلا ہوا لباس اتار كر ( احرام پہن لے ) يا تو اپنا سارا سر منڈائے، يا پھر پورے سر كے بال چھوٹے كروائے، اور اس نے جو كچھ كيا ہے وہ معافى كى جگہ ہوگا كيونكہ وہ جاہل تھا، اور يہ شرط نہيں كہ مكہ ميں ہى بال چھوٹے كروائے جائيں اورسر منڈايا جائے، بلكہ مكہ ميں ہو سكتا ہے اور كہيں اور بھى.

ليكن اگر اس كا يہ عمل علماء ميں سے كسى كے فتوى كى بنا پر تھا تو اس كے ذمہ كچھ نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اگر تمہيں علم نہيں تو پھر اہل علم سے دريافت كرو النحل ( 43 ).

اور بعض علماء كرام سر كے كچھ حصہ كے بال كٹوانے كى رائے ركھتے ہيں " انتہى.

اللقاء الشھرى نمبر ( 10 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب