جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

شادى كے بعد بيوى كو معلوم ہوا كہ خاوند كى پہلے بھى شادى ہے تو بيوى نے مطالبہ اور معاوضے كا مطالبہ كر ديا

82222

تاریخ اشاعت : 14-04-2013

مشاہدات : 3514

سوال

ميں نے ايك عيسائى عورت سے شادى كر ركھى تھى اور اسے طلاق دے كر ايك مسلمان عورت سے شادى كر لى ليكن اسے يہ نہيں بتايا كہ ميں نے پہلے بھى شادى كى تھى، اور نہ ہى رخصتى سے قبل بيوى نے مجھ سے دريافت كيا كہ آيا ميں شادى شدہ تھا يا نہيں.
رخصتى اور دخول كے كچھ عرصہ بعد بيوى نے مجھ سے سوال كيا تو ميں نے اس كا وہى جواب ديا جو حقيقت تھى، ليكن وہ اس سے ناراض ہوگئى اور كہنے لگى: تم نے مجھے دھوكہ ديا ہے، اس طرح اس نے مجھ سے طلاق كا مطالبہ كر ديا اور طلاق پر اصرار كرنے لگى، ميں نے مجبور ہو كر ناچاہتے ہوئے بھى اسے طلاق دے دى.
ليكن اب وہ مجھ سے مالى معاوضہ دينے كا بھى مطالبہ كر رہى ہے، تو كيا شريعت اسلاميہ ميں اس عورت كا يہ حق ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خاوند كے ليے ضرورى اور لازم نہيں كہ وہ اپنى بيوى كو شادى سے قبل بتائے كہ اس نے پہلے بھى شادى كى ہے يا نہيں، ليكن يہ ہے كہ اگر بيوى دريافت كرتى اور يہ پوچھنے كى رغبت ركھتى ہے تو پھر اس سے چھپانا نہيں چاہيے.

دوم:

عورت كے ليے خاوند سے طلاق طلب كرنا جائز نہيں، الا يہ كہ اگر اس كا كوئى شرعى سبب ہو مثلا سوء معاشرت اور برا سلوك اور نقصان و ضرر كا حصول وغيرہ.

اس كى دليل ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے:

ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى اپنے خاوند سے بغير كسى سبب كے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو بھى حرام ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

يہ كہ خاوند نے پہلے بھى شادى كى تھى اور بيوى سے يہ بات مخفى ركھى يہ ايسا سبب نہيں ہے كہ جس كى بنا پر بيوى كو طلاق طلب كرنے كا حق حاصل ہو جائے، اس ليے بيوى كو چاہيے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرے اور اللہ سے توبہ كرتے ہوئے اپنے اس مطالبہ سے باز آ جائے، اور بيوى كو نصيحت كرنى چاہيے كہ وہ ايسا مت كرے، اس كے ليے آپ اپنے خاندان يا پھر بيوى كے گھر والوں ميں سے كسى شخص كو اختيار كريں جو اسے نصيحت كر كے مطمئن كرے.

سوم:

اور اگر طلاق ہو جائے تو اگر مہر باقى رہتا ہے تو وہ اسے ادا كيا جائيگا، اور اگر طلاق رجعى ہو تو پھر عدت كے عرصہ ميں اس كا نان و نفقہ بھى خاوند كے ذمہ ہے، اس كے علاوہ اسے كچھ حاصل نہيں ہوگا.

بيوى جو يہ سمجھتى اور گمان ركھتى ہے كہ اس سے دھوكہ ہوا ہے اور اسے اس كا مالى معاوضہ ادا كيا جائے، ايسى كوئى چيز اسے حاصل كرنے كا حق حاصل نہيں ہے، اور شريعت ميں اس طرح كى كوئى چيز نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب