منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

پائپ فٹر اور بڑھئى اور ٹيلى فون كے ملازم كو انعام و اكرام دينا

82497

تاریخ اشاعت : 27-01-2022

مشاہدات : 6579

سوال

پائپ فٹر يا بڑھئى يا ٹيلى فون ملازم كو اپنا كام ختم كرنے كے بعد انعام و اكرام دينے كا حكم كيا ہے، چاہے اس نے خود طلب كيا ہو، يا ميں خود ہى بغير مطالبہ كيے دے دوں، يہ علم ميں رہے كہ جہاں وہ ملازم ہے وہاں سے اسے ماہانہ تنخواہ ملتى ہے، اور محكمہ ہى اسے ميرے پاس مرمت كرنے كے ليے بھيجتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ مسئلہ بہت ہى اہم مسائل ميں شامل ہوتا ہے اور اس دور ميں بہت ہى عام ہو چكا ہے، حتى كہ بہت سارے ملازمين تو اب مانگنے سے بھى گريز نہيں كرتے، جسے وہ انعام و اكرام اور چائے پانى كا نام ديتے ہيں اور كچھ ملازمين تو اسے اپنا ضرورى حق سمجھتے ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں كہ اگر اسے كچھ ديا جائے تو وہ اس كى مقدار ميں جھگڑا كرنے لگتے ہيں كہ يہ بہت كم ہے، اور جب اسے يہ محسوس ہو كہ اسے انعام و كرام اور چائے پانى نہيں ملےگا يا اس كى مقدار كم ہو گى تو وہ كام ميں سستى و كاہلى برتنے لگتے ہيں، جہاں زيادہ كام كى ضرورت ہوتى ہے وہاں وہ بہت ہى سستى برتتے ہيں.

اس پر غور فكر كرنے والا شخص محسوس كريگا كہ اس انعام وكرام اور چائے پانى كى ادائيگى كے نتيجہ ميں كئى ايك خرابياں پيدا ہوتى ہيں جن كا خلاصہ ذيل ميں بيان كيا جاتا ہے:

1 - جب ملازم كو اپنے محكمہ سے اجرت اور تنخواہ ملتى ہو تو اسے ہديہ اور عطيہ دينے كى كوئى ضرورت اور وجہ نہيں، بلكہ سنت نبويہ سے يہى ظاہر ہوتا ہے كہ ايسا كرنا حرام ہے.

امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو حميد ساعدى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث بيان كي ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بنو اسد كے ايك شخص جس كا نام ابن اللتبيۃ تھا كو زكاۃ اكٹھى كرنے كے ليے بھيجا، جب وہ زكاۃ اكٹھى كر كے لايا تو كہنے لگا: يہ تمہارا ہے، اور يہ مجھے ہديہ ديا گيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم منبر پر تشريف لائے اور اللہ تعالى كى حمد و ثنا بيان كرنے كے بعد فرمايا:

" اس اہلكار كى حالت كيا ہے جسے ہم كسى كام كے ليے روانہ كرتے ہيں تو وہ آكر كہتا ہے: يہ آپ كا ہے، اور يہ ميرا، تو وہ اپنے ماں باپ كے گھر ہى كيوں نہ بيٹھا رہا اور انتظار كرے كہ آيا اسے ہديہ ديا جاتا ہے يا نہيں ؟

اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے وہ جو كچھ بھى لائے گا روز قيامت اسے اپنى گردن پر اٹھائے ہوئے ہوگا، اگر وہ اونٹ ہے تو آواز نكال رہا ہوگا، يا گائے ہو گى تو وہ بھائيں بھائيں كر رہى ہو گى، يا پھر بكرى ہو گى تو وہ مميا رہى ہوگى "

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے تو ہم نے آپ كى بغلوں كى سفيدى ديكھى، اور فرمايا: خبردار رہو، ميں نے پہنچا ديا ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 7174 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1832 ).

حديث ميں استعمال الفاظ كے معانى:

الرغاء: اونٹ كى آواز كو كہتے ہيں:

الخوار: گائے كى آواز كو كہا جاتا ہے.

يعار: بكرى كے مميانے كى آواز كو كہا جاتا ہے.

جائز اور حرام ہديہ ميں فرق يہ ہے كہ:

جو چيز انسان كے كام اور عمل كى بنا پر ہو وہ حرام ہے، اور اس كا ضابطہ يہ ہے كہ: انسان اپنے حال كو ديكھے كہ اگر وہ اس كام ميں نہ ہوتا تو كيا اسے يہ ہديہ ديا جاتا ؟

اور يہى چيز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے اس فرمان ميں بيان كر رہے ہيں:

" تو وہ اپنے ماں باپ كے گھر كيوں نہ بيٹھ كر انتظار كرتا رہا كہ آيا اسے ہديہ ديا جاتا ہے يا نہيں ؟ "

2 - يہ انعام و كرام اور چائے پانى ملازم كو اس بات كى دعوت ديتا ہے كہ وہ دينے والے سے محبت كرے حتى كہ وہ اسے ايسى چيز دے جو اس كا حق نہيں جس كے نتيجہ ميں كام والے كو نقصان ہوگا.

3 - يہ چيز ملازم كا دل ميں ان لوگوں كے متعل خرابى پيدا كريگا جو اسے كچھ بھى نہيں دينگے، تو اس طرح وہ ان كا كام اچھے اور بہتر طريقہ سے سرانجام نہيں ديگا، اور ان كے كام ميں كوتاہى برتےگا.

4 - اس سے ملازم كو سوال كرنے اور مانگنے كى جرات پيدا ہو گى اور وہ انعام واكرام اور چائے پانى كے انتظار ميں رہتا ہوا اسے للچائى ہوئى نظروں سے ديكھےگا، جو كہ ايك برى عادت ہے، اس كے خلاف آواز اٹھانا اور اسے ختم كرنا ضروى ہے.

كيونكہ اسلام عزت نفس كى دعوت ديتے ہوئے دوسروں كے ہاتھ ميں جو كچھ ہے اسے جھانكنے كى بجائے اپنے آپ كو بلند كرنے كا كہتا ہے، بلكہ ضرورت كے بغير تو كسى سے مانگنا بھى حرام ہے، اور اسلام اس پر راضى نہيں كہ اس طرح پورى امت كى اكثريت ہى مانگنے والوں ميں بدل جائے چاہے يہ مانگنا اور سوال كرنے كو انعام و اكرام اور چائے پانى يا كميشن جيسے نام كے غلاف ميں لپيٹ ليا گيا ہو.

اور يہ خرابيان ملازم كے ساتھ حسن سلوك اور احسان كرنے كى مصلحت كے مخالف ہيں، اور جب ملازم فقير اور محتاج ہو تو اس پر صدقہ كرنے كى مصلحت كے بھى مخالف ہے، يا پھر سوال كرنے والے كو نامراد واپس كرنے كى كراہت و ناپسنديدگى كى بنا پر اس كا سوال پورا كيا جانے كے بھى مخالف ہے.

اور اہل علم كے ہاں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:

مفاسد اور خرابيوں كو دور كرنا مصلحت لانے پر مقدم ہے، اس بنا پر انعام و اكرام اور چائے پانى كے نام سے موسوم ادائيگى كرنا جائز نہيں، صرف ايك بہت ہى تنگ سى صورت ميں كہ جو ان خرابيوں سے خالى ہو مثلا ملازم اپنے كام سے فارغ ہو چكا ہو، اس يہ توقع نہ رہے كہ وہ ادائيگى كرنے والے كا كوئى اور كام نہيں كريگا، تو يہاں رشوت اور پسنديدگى كا شبہ ختم ہو جاتا ہے، اس طرح بطور عزت و اكرام يا تعاون كى مد ميں اسے كچھ نہ كچھ دينا جائز ہوگا، جيسا كہ بعض اہل علم نے فتوى ديا ہے، اس كا بيان آگے آ رہا ہے، ليكن اولى اور بہتر يہى ہے كہ ايسا نہ كيا جائے؛ كيونكہ طلب كرنے اور مانگنے كى عادت بن جانے، اور جھانكنے كى خرابى موجود ہے، اور اسى طرح جو اسے نہ ديگا اس كے خلاف اس كا دل خراب ہونے والى خرابى بھى موجود رہے گى.

اس مسئلہ ميں اہل علم كى كلام ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:

1 - مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

سوال:

ايسے شخص كے بارہ ميں شريعت كا حكم كيا ہے جسے دوران كام بغير كسى مطالبہ كے كچھ رقم دى جائے، يا پھر اس نے وہ رقم لينے كے ليے كوئى حيلہ بازى كى ہو.

اس كى مثال يہ ہے كہ: محلہ كے ناظم يا نبمردار كے پاس لوگ تعارفى ليٹر لينے آتے ہيں كہ وہ اس كے محلہ ميں رہائش پذير ہيں، اور اس كے عوض ميں وہ اسے پيسے ديتے ہيں.... تو كيا اس كے ليے يہ رقم لينى جائز ہے، اور كيا يہ مال حلال شمار ہو گا ؟

اور كيا اس كا استدلال درج ذيل حديث سے كيا جا سكتا ہے:

سالم بن عبد اللہ بن عمر اپنے باپ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں وہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں انہوں نے فرمايا:

مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كچھ مال بطور عطيہ ديا كرتے تھے، تو ميں انہيں عرض كرتا: آپ يہ مال اسے ديں جو مجھ سے بھى زيادہ محتاج اور ضرورتمند ہو، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرماتے:

" اسے لے لو، جب اس مال ميں سے كچھ تيرے پاس بغير مانگے آئے اور نہ ہى تو اسے جھانكنے والا ہو تو اسے ليكر اسے اپنا مال بناؤ اور پھر اگر چاہو تو اسے صدقہ كر دو، اور جو نہ آئے تو اپنے آپ كو اس كے پيچھے مت لگاؤ "

سالم رحمہ اللہ كہتے ہيں: تو عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كسى سے بھى كبھى كوئى چيز طلب نہيں كرتے تھے، اور اگر انہيں كوئى عطيہ ديا جاتا تو اسے رد نہيں كرتے تھے "

صحيح بخارى اور صحيح مسلم. ؟

اس كے جواب ميں كميٹى كا كہنا تھا:

جواب:

اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا كہ سوال ميں بيان ہوا ہے تو پھر محلہ كے ناظم يا نمبردار كو جو كچھ ديا گيا ہے وہ حرام ہے؛ كيونكہ وہ رشوت ہے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث كے ساتھ اس موضوع كا كوئى تعلق اور واسطہ نہيں ہے؛ كيونكہ وہ حديث تو اس شخص كے متعلق ہے جسے مسلمانوں كے بيت المال سے مسلمانوں كا حكمران بغير كسى سوال اور طلب كرنے يا بغير جھانكے كسى شخص كو عطا كرے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 548 ).

2 - شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ہمارا ايك شادى ہال ہے جہاں مختلف قسم كى تقريبات كى جاتى ہيں اور اس ميں باورچى بھى ركھے ہوئے ہيں، ان ميں سے بعض باورچى تنخواہ كے علاوہ انعام و اكرام اور چائے پانى كا مطالبہ بھى كرتے ہيں؛ تو كيا بطور انعام و اكرام اور چائے پانى ملازم كو كچھ رقم دينى جائز ہے؛ وہ اس طرح كہ لوگوں سے لينے كا عادى ہو چكا ہے ؟

شيخ حفظہ اللہ نے جواب ديا:

" اگر تو اس ملازم كى تنخواہ مقرر ہے اور مالك كى جانب سے اس كى اجرت مقرر كر دى گئى ہے؛ تو كسى بھى شخص كے ليے اسے كچھ دينا جائز نہيں؛ كيونكہ ايسا كرنے سے وہ دوسرے كے ليے خرابى پيدا كريگا؛ كيونكہ بعض لوگ فقراء ہوتے ہيں جو انہيں كچھ نہيں دے سكتے؛ تو يہ عمل ايك برا طريقہ ہے " انتہى.

ماخوذ از: المنتقى فى فتاوى الشيخ الفوزان جلد ( 3 ) سوال ( 233 ).

3 - شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

ہوٹل كے ملازم اور ويٹر كو بل سے زيادہ ( جسے بخشيش كا نام ديا جاتا ہے ) رقم دينے كا حكم كيا ہے ؟

شيخ كا جواب تھا:

" ملازم يا ويٹر كو يہ زيادہ رقم دينى جائز نہيں، كيونكہ يہ آپ كى جانب سے رشوت شمار ہو گى تا كہ وہ آپ كو اچھى اور بہتر سروس مہيا كرے، يا پھر آپ كو باقى لوگوں سے زيادہ كھانا فراہم كرے، اور ملازم كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى ايك شخص كو باقى افراد سے زيادہ سروس فراہم كرے، بلكہ ملازم كو چاہيے كہ وہ سب لوگوں كے ساتھ ايك جيسا ہى معاملہ كرے.

ليكن.... اگر اس زيادہ رقم سے رشوت، يا ايك دوسرے كو پسنديدگى كا شبہ ختم ہو جائے تو پھر اس وقت ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

جس طرح كہ اگر آپ اس محتاج اور ضرورتمند اور كمزور ملازم شخص پر احسان كا مقصد ركھتے ہوں، اور آپ اس ہوٹل پر بار بار نہ جاتے ہوں " انتہى. ماخوذ از: سوال نمبر ( 21605 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب