جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

ہوٹل كے سٹور كيپر كى ملازمت اور وہاں شراب بھى ہے

82886

تاریخ اشاعت : 21-07-2007

مشاہدات : 5166

سوال

ميں ايك ہوٹل كا سٹور كيپر ہوں، اور اس سٹور ميں شراب بھى ہے يہ علم ميں رہے كہ ميں اسے ہاتھ بھى نہيں لگاتا!! كيا ميرا يہ كام حلال ہے يا حرام ؟
اور اگر مجھے كوئى اور كام نہ ملے تو كيا اس كا حكم تبديل ہو سكتا ہے، كيونكہ ميں شادى شدہ ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شراب ام البائث ہے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى فرمايا ہے:

" شراب ام الخبائث ہے "

اسے طبرانى نے الاوسط ميں روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع ميں حسن قرار ديا ہے.

اس ليے نہ تو شراب نوشى جائز ہے، اور نہ ہى شراب كا اٹھانا اور اسے فروخت كرنا، اور نہ ہى خريدنا، اور نہ ہى كسى بھى طريقہ سے شراب كے معاملہ ميں معاونت كرنا، مثلا رجسٹر ميں اس كى كميت كا اندراج كرنا، يا كمپيوٹر ميں اس كى ڈيٹا محفوظ كرنا، كيونكہ اس پر بہت شديد وعيد اور لعنت وارد ہوئى ہے.

جيسا كہ ابو داود اور ابن ماجہ كى ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى حديث ميں بيان ہوا ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى نے شراب پر اور شراب نوشى كرنے والے، اور شراب لے جانے والے، اور شراب فروخت كرنے والے، اور شراب خريدنے والے، اور شراب كشيد كرنے والے، اور كشيد كروانے والے، اور اسے اٹھا كر لے جانے والے، اور جس كى طرف اٹھا كر لے جائے ان سب پر لعنت فرمائى ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3674 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3380 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ترمذى رحمہ اللہ نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شراب كے سلسلہ ميں دس افراد پر لعنت فرمائى:

شراب كشيد كرنے والے پر، اور كشيد كروانے والے پر، اور شراب نوشى كرنے والے پر، اور شراب اٹھا كر لے جانے والے پر، اور جس كى طرف اٹھا كر لے جائى جائے، اور شراب پلانے والے پر، اور شراب فروخت كرنے، اور شراب كى قيمت كھانے والے پر اور شراب خريدنے والے پر، اور جس كے ليے خريدى گئى ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1295 ).

بلا شك و شبہ آپ كا اس سٹور پر كام كرنا جہاں شراب پائى جاتى ہے، اس كا تقاضا ہے كہ اس كى حفاظت كى جائے، اور اس كا حساب و كتاب ركھا جائے اور اس كى كميت كا اندراج كيا جائے، اور اس برائى كو اٹھا كر لے جانے اور وقتا فوقتا وہاں سے منتقل كرنے پر خاموش رہا جائے.

اس بنا پر آپ كے ليے يہ ملازمت اور كام جارى ركھنا جائز نہيں؛ كيونكہ اس ميں گناہ و معصيت ظلم و زيادتى ميں معاونت ہوتى ہے، اور برائى سے منع كرنے كو ترك كرنا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى تم ميں سے كوئى برائى ديكھى تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اور اگر وہ اس كى استطاعت نہيں ركھتا تو اپنى زبان سے روكے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہيں ركھتا تو اپنے دل سے منع كرے اور يہ ايمان كا كمزور ترين حصہ ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).

اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ دل سے برائى كا انكار اور روكنے كے ليے شرط ہے كہ برائى والى جگہ كو چھوڑ ديا جائے، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم نازل كر چكا ہے كہ جب تم كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ كفر كرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ مت بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ورنہ تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى تمام كافروں اور سب منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے النساء ( 140 ).

امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ تعالى:

تو تم اس مجلس ميں ان كے ساتھ مت بيٹھو! حتى كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں كرنے لگيں .

يعنى كفر كے علاوہ دوسرى باتيں كرنے لگيں.

ورنہ تم بھى انہى جيسے ہو .

تو يہ آيت اس بات كى دليل ہے كہ معصيت و گناہ كے مرتكب افراد سے جب برائى ظاہر ہو تو ان سے اجتناب كرنا واجب ہے؛ كيونكہ جو شخص ان سے اجتناب نہيں كريگا اور عليحدہ نہيں ہوگا وہ ان كے فعل سے راضى ہے، اور كفر سے راضى ہونا بھى كفر ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يقينا تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو.

تو ہر وہ شخص جو معصيت و نافرمانى كى مجلس ميں بيٹھا اور اس نے برائى سے منع نہ كيا تو وہ بھى گناہ ميں ان كے ساتھ برابر كا شريك ہے.

جب وہ معصيت و نافرمانى كى بات كريں اور اس پر عمل كريں تو انہيں اس سے روكنا واجب ہے، اور اگر وہ منع كرنے اور روكنے كى قدرت اور طاقت نہيں ركھتا تو پھر اسے وہاں سے اٹھ جانا چاہيے تا كہ وہ اس آيت والوں ميں شامل نہ ہو جائے.

عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ سے بيان كيا جاتا ہے كہ انہوں نے كچھ لوگوں كو شراب نوشى كرتے ہوئے پكڑ ليا تو وہاں حاضرين ميں سے ايك شخص كے متعلق انہيں كہا گيا كہ وہ تو روزہ سے تھا، تو عمر بن عبد العزيز نے اسے بھى ادب سكھانے ميں شامل كيا اور يہ آيت تلاوت كى:

تم بھى اس وقت انہى ميں سے ہو .

يعنى معصيت و نافرمانى پر راضى ہونا بھى معصيت ہے، اسى ليے برائى كرنے والے اور اس پر راضى ہونے والا بھى معصيت اور برائى كى سزا كا مستحق ہے حتى كہ وہ سب ہلاك ہو جائيں، اور يہ مماثلت سب صفات ميں نہيں، ليكن مقارنہ سے ظاہرى مشابہت كى بنا پر حكم لگانا ہے، جس طرح يہ قول ہے: ہر دوست مقارنہ كرنے والے كى اقتدا كرتا ہے " انتہى.

آپ كو كوئى اور مباح اور جائز كام تلاش كرنا چاہيے، اور آپ كو يہ يقين ہونا چاہيے كہ روزى اللہ تعالى كى جانب سے ہے، اور اللہ تعالى اپنے مومن بندے كو كبھى ضائع نہيں كرتا، اور آپ كو تنگى رزق، اور معاشى حالت ميں تنگى، اور كچھ دير كے ليے مشكل وقت سے نكلنے ميں تاخير ہونا اور برے حالات اس پر نہ ابھاريں كہ آپ اللہ تعالى كى معصيت و نافرمانى كر كے رزق تلاش كريں، اس سے اجتناب كريں.

ابن ماجہ رحمہ اللہ نے سنن ابن ماجہ ميں جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے لوگو! اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرو، اور روزى طلب كرنے ميں پاكيزہ اور خوبصورت طريقہ اختيار كرو، كيونكہ كوئى بھى جان اس وقت تك فوت نہيں ہوگى جب تك كہ وہ اپنا رزق پورا نہ كر لے، چاہے وہ اس سے سست اور ليٹ ہو جائے، تو اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے طلب كرنے ميں خوبصورتى اختيار كرو؛ اور جو حلال ہے وہ لے لو، اور جو حرام ہے اسے چھوڑ دو "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2144 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ہمارے محترم بھائى آپ كو يہ علم ہونا چاہيے كہ جو كوئى بھى اللہ تعالى كے ليے كوئى چيز ترك كرتا ہے اللہ تعالى اسے اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز عطا فرماتا ہے.

جيسا كہ امام احمد رحمہ اللہ نے ابو قتادہ اور ابو دھماء رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كى ہے وہ دونوں بيان كرتے ہيں كہ:

" ہم ايك باديہ نشين كے پاس گئے اور كہنے لگے: كيا تم نے نبى كريم صلى اللہ عليہ سے كچھ سنا ہے ؟!

تو اس نے جواب ديا: جى ہاں، ميں نے انہيں سنا آپ فرما رہے تھے:

" بلا شبہ تو جو چيز بھى اللہ تعالى كے چھوڑے گا، اللہ تعالى اس كے بدلے تجھے اس سے بھى اچھى اور بہتر چيز عطا فرمائيگا "

مسند احمد حديث نمبر ( 22565 ) شيخ ارناؤود كہتے ہيں: اس كى سند صحيح ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الضعيفۃ حديث نمبر ( 5 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور آپ كو جتنى بھى معاشى تنگى آئے وہ اس عظيم اور بڑى برائى اور معصيت ديكھنے سے بھى آسان اور ہلكى ہے، اور ان جيسى جگہوں پر كام اور ملازمت كرنا جہاں پر لعنت برستى ہو، اور وہ مال كمانا جس ميں كوئى خير و بھلائى نہ ہو نہ تو اس ميں آپ كے ليے كوئى بھلائى اور خير ہے اور نہ ہى آپ كے اہل و عيال كے ليے، اس ليے آپ اس ملازمت كو ترك كرنے ميں جتنى بھى جلدى ہو سكے كريں اور اس بيمارى سے نكل جائيں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے معاملہ ميں آسانى پيدا فرمائے، اور آپ كو اپنے فضل و كرم سے روزى عطا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب