جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

جس چیز کی بھی لوگوں کو ضرورت ہو اس کی قلت پیدا کرنے کے لیے ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔

سوال

حرام ذخیرہ اندوزی صرف کھانے پینے کی چیزوں میں ہو گی یا باقی چیزوں میں بھی ذخیرہ اندوزی حرام ہو سکتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ناجائز ذخیرہ اندوزی حرام ہے، اس کے حرام ہونے پر صحیح مسلم کی واضح روایت موجود ہے کہ جناب معمر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ناجائز ذخیرہ اندوزی صرف گناہ گار ہی کرتا ہے)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل لغت کا کہنا ہے کہ [حدیث میں مذکور عربی لفظ] " خاطئ " کا مطلب ہے کہ نافرمان اور گناہ گار، نیز یہ حدیث ناجائز ذخیرہ اندوزی کی حرمت کے سلسلے میں بالکل واضح ہے۔" ختم شد

شریعت نے ناجائز ذخیرہ اندوزی کو حرام اس لیے قرار دیا ہے کہ اس سے لوگوں کو نقصان ہوتا ہے۔

تاہم اہل علم کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ناجائز ذخیرہ اندوزی کس چیز میں ہوتی ہے؟ تو کچھ کہتے ہیں کہ یہ صرف غذائی اجناس میں ہوتی ہے۔

جبکہ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ ہر اس چیز میں ہو سکتی ہے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو، اور اس چیز کو روکنے سے انہیں تکلیف پہنچے، یہ مالکی فقہائے کرام اور امام احمد کا ایک موقف ہے، اور یہی صحیح موقف ہے؛ کیونکہ حدیث کے ظاہری الفاظ کے مطابق یہی موقف بنتا ہے۔

اس بارے میں امام شوکانی رحمہ اللہ "نيل الأوطار" (5/262 ) میں لکھتے ہیں کہ:
"احادیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ انسانوں یا جانوروں کی خوراک میں بلا تفریق ناجائز ذخیرہ اندوزی حرام ہے، لہذا جن چند روایات میں لفظ "طعام" یعنی کھانے کی اشیا کا ذکر ہے ان کی وجہ سے دیگر مطلق روایات کو مقید کرنا درست نہیں؛ کیونکہ یہ تو محض مطلق احادیث کے اطلاقات میں سے کسی ایک کی نصاً صراحت ہے۔" ختم شد

اسی طرح شافعی فقیہ علامہ رملی رحمہ اللہ " حاشية أسنى المطالب "(2/39) میں لکھتے ہیں:
"مناسب یہی ہے کہ ناجائز ذخیرہ اندوزی کا حکم ہر اس چیز پر ہونا چاہیے جس کی عام طور پر ضرورت ہو، چاہے اس کا تعلق ملبوسات سے ہو یا کھانے کی اشیا سے۔" ختم شد

اور یہی موقف اس حکمت کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جس کی وجہ سے ناجائز ذخیرہ اندوزی منع کی گئی ہے، اور وہ ہے لوگوں کو نقصان پہنچانا، چنانچہ اس موقف کے مطابق دائمی فتوی کمیٹی نے فتوی جاری کیا، چنانچہ ان کے فتوی نمبر: (6374) میں ہے کہ:
"جس چیز کی لوگوں کو ضرورت ہو اسے ذخیرہ کرنا جائز نہیں ہے؛ اسے "احتکار" کہا جاتا ہے؛ ممانعت کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ناجائز ذخیرہ اندوزی صرف گناہ گار ہی کرتا ہے) اس حدیث کو امام احمد، مسلم، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
ناجائز ذخیرہ اندوزی کے حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
لہذا اگر کوئی چیز لوگوں کے لیے وافر موجود ہو تو اس کو ذخیرہ کرنا جائز ہے، چنانچہ جیسے ہی انہیں ضرورت پڑے تو انہیں وہ چیز مہیا کر دی جائے، اور لوگوں کو کسی قسم کا حرج اور تکلیف بھی محسوس نہ ہو" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (13/184)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب