جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

كيا نمازى كو سلام كرنا جائز ہے ؟

8599

تاریخ اشاعت : 10-03-2007

مشاہدات : 8003

سوال

كيا مسلمان كے ليے نماز ادا كرتے ہوئے مسلمان كو يا ذكر اور دعاء كى حالت والے شخص كو سلام كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسلمان كے ليے مشروع ہے كہ وہ اپنے نمازى مسلمان بھائى كو سلام كى ابتدا كرے ليكن وہ نماز كى حالت ميں زبان سے سلام كا جواب نہيں دے گا بلكہ وہ اپنى نماز كى حفاظت كرتے ہوئے ہاتھ كے اشارے سے سلام كا جواب دے كيونكہ يہ حديث سے ثابت ہے.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے بلال رضى اللہ تعالى عنہ كو كہا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ نماز كى حالت ميں ہوتے اور صحابہ كرام انہيں سلام كرتے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جواب كيسے ديتے تھے؟

تو بلال رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا: وہ اپنے ہاتھ سے اشارہ كرتے تھے"

مسند احمد ( 6 / 12 ) حديث نمبر ( 927 ) سنن ترمذى ( 2 / 204 ) حديث نمبر ( 368 ) سنن بيہقى ( 2 / 262 ) اسے پانچوں نے روايت كيا ہے.

اور يہ بھى ثابت ہے كہ صہيب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

ميں گزرا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز ادا كر رہے تھے اور ميں نے سلام كيا تو انہوں نے اشارہ سے ميرى سلام كا جواب ديا"

اور وہ كہتے ہيں: مجھے نہيں معلوم كہ صہيب رضى اللہ تعالى نے كہا ہو كہ: اپنى انگلى كے ساتھ اشارہ كيا"

ابن ماجہ كے علاوقى باقى پانچ نے روايت كيا ہے. اور ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ميرے نزديك دونوں حديثيں صحيح ہيں.

اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتى ہيں كہ ميں نے سنا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ عصر كے بعد دو ركعتيں ادا كرنے سے منع فرمايا كرتے تھے، اور پھر ميں نے عصر كے بعد دو ركعت پڑھتے ہوئے ديكھا، تو بيان كرتى ہيں كہ وہ گھر ميں آئے تو ميرے پاس بنو حرام كى چند عورتيں بيٹھى ہوئى تھيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دو ركعتيں پڑھيں، ميں نے ان كى طرف لونڈى كو بھيجا اور اسے كہنا كہ ان كے پاس كھڑى ہو كر انہيں يہ كہو: آپ كو ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہے كہ:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے تو آپ كو ان دو ركعتوں سے منع كرتے ہوئے سنا ہے، اور ميں ديكھ رہى ہوں كہ آپ يہ دو ركعتيں پڑھ رہے ہيں، اگر تو وہ اپنے ہاتھ سے اشارہ كريں تو پيچھے ہٹ كر كھڑى ہو جانا، تو اس لونڈى نے ايسا ہى كيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ كيا تو وہ ان سے دور ہٹ گئى، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمانے لگے:

" اے بنو اميہ كى بيٹى تو نے عصر كے بعد دو ركعتوں كے متعلق دريافت كيا ہے، تو مسئلہ يہ ہے كہ ميرے پاس بنو عبد القيس كے كچھ لوگ آ گئے اور مجھے ظہر كى ان دو ركعتوں سے مشغول كر ديا، تو وہ دو ركعيں يہ ہيں"

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

تو ان احاديث ميں نمازى كو نماز كى حالت ميں سلام كرنے كى مشروعيت پائى جاتى ہے، اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے اقرار اور ان كے اشارہ كرنے كى بنا پر وہ سلام كا جواب اشارہ سے دے گا.

دوم:

مسلمان كے ليے مشروع ہے كہ وہ ذكر و اذكار يا دعاء ميں مشغول شخص كو سلام كرنے ميں ابتدا كرے، كيونكہ يہ ثابت ہے.

ابو واقد ليثى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد ميں تشريف فرما تھے، اور ان كے ساتھ كچھ لوگ بھى تھے، چنانچہ تين اشخاص آئے اور ان ميں سے دو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جانب آگئے اور ايك چلا گيا، جب وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آكر كھڑے ہوئے تو انہوں نے سلام كيا، ان ميں سےايك لوگوں كے حلقہ ميں كوئى خالى جگہ ديكھى تو اس ميں بيٹھ گيا اور دوسرا ان كے پيچھے بيٹھ گيا، اور تيسرا واپس چلا گيا، جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمانے لگے:

" كيا ميں تمہيں تين شخصوں كے بارہ ميں نہ بتاؤں ؟ ان ميں سے ايك نے تو اللہ سے جگہ مانگى تو اللہ نے اسے ٹھكانہ دے ديا، اور دوسرے نے حيا اور شرم محسوس كى تو اللہ نے بھى اس سے شرم كى، اور تيسرا واپس چلا گيا تو اللہ تعالى نے بھى اس سے اعراض كر ليا"

اسے امام مالك نے موطا ( 2 / 960 ) اور امام احمد نے مسند احمد ( 5 / 219 ) اور امام بخارى نے صحيح بخارى ( 1 / 24، 122 ) اور امام مسلم نے صحيح مسلم ( 4 / 1713 ) حديث نمبر ( 2176 ) اور امام ترمذى نے سنن ترمذى ( 5 / 73 ) حديث نمبر ( 2724 ) اور ابو يعلى ( 3 / 33 ) حديث نمبر ( 1445 ) ميں روايت كيا ہے.

اور صحيحين ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:

ايك اعرابى مسجد ميں داخل ہوا اور نماز ادا كى تو اس كا ركوع اور نہ ہى سجدہ مكمل كيا اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور سلام كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے سلام كا جواب دے كر فرمايا: " جاؤ جا كر نماز ادا كرو، تم نے نماز ادا نہيں كى..... " الحديث

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پراپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 36 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال وجواب