منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

عورت كا گھر ميں نماز ادا كرنا مسجد سے افضل ہے

8868

تاریخ اشاعت : 01-04-2006

مشاہدات : 7005

سوال

عورتوں كا عام جگہوں پر نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت فتنہ ہے، عورت كے ذمہ دار كے حتى الوسعہ مردوں سے اس كى حفاظت اور بچاؤ كرنا چاہيے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو عورت كے ليے گھر ميں نماز ادا كرنا افضل قرار ديا، اور اس كى اس نماز كو اجروثواب ميں مسجد ميں ادا كردہ نماز سے افضل بنايا.

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عورت كى اپنے گھر ميں كمرہ ميں نماز ادا كرنے سے افضل ہے، اور پچھلے كمرہ ميں اس كا نماز ادا كرنا گھر ميں نماز ادا كرنے سے افضل ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 570 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1173 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب و الترھيب ( 1 / 136 ) ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

گھر سے مراد وہ كمرہ ہے جس ميں عورت ہوتى ہے.

كمرہ سے مراد گھر كا صحن مراد ہے، جس كى طرف كمروں كے دروازے كھلتے ہيں، اور آج كل جسے لوگوں نے ہال كا نام دے ركھا ہے.

پچھلا كمرہ: يہ ايك بڑے كمرہ ميں چھوٹا سا كمرہ ہوتا ہے جس ميں قيمتى اشياء محفوظ كى جاتى ہيں.

شرح ماخوذ از: كتاب عون المعبود.

ابو حميد ساعدى رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى ام حميد رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كيا:

" اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ كے ساتھ نماز ادا كرنا پسند كرتى ہوں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مجھے علم ہے كہ آپ ميرے ساتھ نماز ادا كرنا پسند كرتى ہيں، تيرا گھر ميں نماز ادا كرنا صحن ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور صحن ميں نماز ادا كرنا دار ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے، اور تيرا گھر كى چارديوارى ميں نماز ادا كرنا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز سے بہتر ہے، اور تيرا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنا ميرى مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے.

راوى بيان كرتے ہيں كہ: انہوں نے حكم ديا تو گھر كے آخرى كونے اور اندھيرے ميں مسجد بنا دى گئى، وہ فوت ہونے تك وہيں نماز ادا كرتى رہيں"

مسند احمد حديث نمبر ( 26550 ).

اس حديث كو ابن خزيمہ نے صحيح ابن خزيمہ ( 3 / 95 ) اور ابن حبان ( 5 / 595 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب و الترھيب ( 1 /135) ميں صحيح قرار ديا ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" جو كچھ عورتوں نے كرنا شروع كر ديا ہے اگر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے پا ليتے تو انہيں بنى اسرائيل كى عورتوں كى طرح منع فرما ديتے، ميں نے كہا كيا عمرہ سے انہيں كر ديتے، تو وہ كہنے لگيں، جى ہاں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 831 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 445 ).

عبد العظيم آبادى كا كہنا ہے:

گھروں ميں عورتوں كى نماز افضل ہونے كى وجہ يہ ہے كہ فتنہ سے امن رہتا ہے، اور اس كى تاكيد اس سے ہوتى ہے جو كچھ عورتوں نے بے پردگى اور زيب و زينت كرنا شروع كر دى ہے، اور اسى بنا پر عائشہ رضى اللہ تعالى نے جو كہا سو كہا"

ديكھيں: عون المعبود ( 2 / 193 ).

اس ليے عورت كو چاہيے كہ وہ عام جگہوں پر نماز ادا كرنے سے احتياط كرے، اور وہ مردوں كى نظروں سے دور رہے، يہ نماز كے وقت نہ كرے، اس جگہ كے علاوہ اس كے پاس نماز كے ليے كوئى اور جگہ ہى نہيں رہى.

شيخ عبد اللہ بن جبرين حفظہ اللہ كہتے ہيں:

چنانچہ عورت كے ليے اس كا گھر بہتر ہے، اور اگر وہ بازار ميں نماز ادا كرنے كى محتاج ہو اور وہاں پردہ اور سترہ ہو تو ان شاء اللہ اس ميں كوئى مانع نہيں.

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 333 ).

اور بعض عام لوگ جو يہ كہتے ہيں كہ مرد كے ديكھنے سے ہى عورت كى نماز باطل ہو جاتى ہے، شريعت ميں بالكل اس كى كوئى دليل نہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے عہد مبارك ميں عورتيں ايك مسجد ميں نماز ادا كرتى تھيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ نے عورتوں كى نماز باطل ہونے كا حكم نہيں لگايا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب