بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

عبادت كے ليے نصف شعبان كى رات مخصوص كرنا

سوال

ميں نے ايك كتاب ميں پڑھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا بدعت ہے، اور ايك دوسرى كتاب ميں لكھا تھا كہ نصف شعبان كا روزہ ركھنا مستحب ہے... برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس كے متعلق قطعى حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نصف شعبان كى فضيلت ميں كوئى بھى صحيح اور مرفوع حديث ثابت نہيں، حتى كہ فضائل ميں بھى ثابت نہيں، بلكہ اس كے متعلق كچھ تابعين سے بعض مقطوع آثار وارد ہيں، اور ان احاديث ميں موضوع يا ضعيف احاديث شامل ہيں جو اكثر جہالت والے علاقوں ميں پھيلى ہوئى ہيں.

ان ميں مشہور يہ ہے كہ اس رات عمريں لكھى جاتى ہيں اور آئندہ برس كے اعمال مقرر كيے جاتے ہيں.... الخ.

اس بنا پر اس رات كو عبادت كے ليے بيدار ہونا جائز نہيں اور نہ ہى پندرہ شعبان كا روزہ ركھنا جائز ہے، اور اس رات كو عبادت كے ليے مخصوص كرنا بھى جائز نہيں ہے، اكثر جاہل لوگوں كا اس رات عبادت كرنا معتبر شمار نہيں ہو گا "

واللہ تعالى اعلم

الشيخ ابن جبرين حفظہ اللہ

اگر كوئى شخص عام راتوں كى طرح اس رات بھى قيام كرنا چاہے ـ اس ميں كوئى اضافى اور زائد كام نہ ہو اور نہ ہى اس كى تخصيص كى گئى ہو ـ تو جس طرح وہ عام راتوں ميں عبادت كرتا تھا اس ميں بھى جائز ہے.

اور اسى طرح پندرہ شعبان كو روزے كے ليے مخصوص كرنا صحيح نہيں، ليكن اگر وہ اس بنا پر روزہ ركھ رہا ہے كہ يہ ايام بيض يعنى ہر ماہ كى تيرہ چودہ اور پندرہ تاريخ كو روزہ ركھنا مشروع ہے، يا پھر وہ جمعرات يا سوموار كا روزہ ركھتا تھا اور پندرہ شعبان اس كے موافق ہوئى تو اس اعتبار سے روزہ ركھنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس ميں اس كا اعتقاد نہيں ہونا چاہيے كہ اس سے اسے اجروثواب زيادہ حاصل ہو گا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشيخ محمد صالح المنجد