منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

بدعتى تقريبات ميں انعامى مقابلے

سوال

ہمارى مساجد ميں ( ماہ رمضان ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد ميں ... ) دينى تقريبات كے موقع پر انعامى مقابلہ كا اہتمام كيا جاتا ہے، تو كيا يہ انعام لينے جائز ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

امت اسلاميہ كے ليے عيد اور تہوار معدود اور معروف ہيں شريعت اسلاميہ ميں اس كو بيان كيا گيا ہے، اور لوگوں كو ان كا خيال ركھنے پر ابھارا گيا ہے، ان تہواروں اور موسموں ميں رمضان المبارك كى خير و بركت كا موسم اور عيد الفطر اور عيد الاضحى اور عشرہ ذوالحجہ، اور يوم عاشوراء كا روزہ ہے.

ان ميں عيد ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم شامل نہيں، كيونكہ اس روز كے متعلق نہ تو شريعت ميں كسى عبادت كى تخصيص ہے، اور نہ ہى كسى شعار اپنانے اور كوئى تقريب منتعد كرنے كى، بلكہ نہ تو صحابہ كرام نے اور نہ ہى تابعين عظام نے اور نہ ہى ان كے بعد آنے والے آئمہ كرام نے عيد ميلاد النبى منائى، اس ليے اگر كوئى شخص بھى ان كى جانب شريعت سے كچھ نسب كرتا ہے تو اس نے بدعت كا ارتكاب كيا، اور اس نے دين ميں وہ چيز ايجاد كى جو دين ميں نہ تھى، ہمارى اس ويب سائٹ ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا جشن منانے كے بدعت ہونے كا بيان كئى ايك سوالات كے جوابات ميں ہوا ہے.

آپ اس كى تفصيل درج ذيل سوالات ميں ديكھ سكتے ہيں:

سوال نمبر ( 5219 ) اور ( 10070 ) اور ( 13810 ) اور ( 20889 ) اور ( 70317 ) كے جوابات.

دوم:

بلاشك اس دن انعامى مقابلہ منعقد كرنا اس دن كو منانے اور اس كا جشن منانا شمار ہوتا ہے، اور اسى ميں شامل ہوتا ہے جو اسے عيد مانتا ہے، اس ليے اس ميں شريك ہونا يا پھر اس بدعتى موقع پر منعقد ہونے والے انعامى مقابلہ ميں شريك ہونا جائز نہيں وگرنہ اس ميں شريك ہونا بھى بدعت شمار ہو گا، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ ہميں اس بدعت سے سلامتى و عافيت عطا فرمائے.

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" امت ا

امت اسلاميہ كى معاونت كرتے ہوئے آپ كى اس مسئلہ ميں كيا رائے ہے كہ ميلاد نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے موقع پر سكول اور فكيٹرى اور اداروں وغيرہ ميں چھٹى كرنا، اور تقارير اور ليكچر اور وعظ كرنا، جيسا كہ ہمارےہاں افريقہ ميں كيا جاتا ہے، كيا يہ صحيح ہے ؟

كميٹى كا جواب يہ تھا:

ميلاد النبى كى جشن منانا اور اس دن چھٹى كرنا بدعت ہے؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہ تو خود ايسا كيا، اور نہ ہى ان كے صحابہ كرام نے ايسا كيا.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان يہ ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس معاملہ ميں كوئى نئى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ رد ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 3 / 25 ).

سوم:

رہى شرعى تقريبات مثلا ماہ رمضان وغيرہ تو يہ مشروع ہے بلكہ اس كى ياد دہانى كرانا مستحب ہے، اور رمضان المبارك كے فضائل اور پہچان كرنا اور اس ميں مستحب اعمال بتانا، اور اس ماہ مبارك ميں جو اجروثواب ہے لوگوں كے علم ميں لانا، اور درس اور تقارير اور كنونشن منعقد كرانا شرعى خير و بھلائى كے مواسم كى تعليم دينے كا بہترين ذريعہ ہيں.

اور شرعى تقريبات كو زندہ كرنے كے وسائل ميں علمى انعامى مقابلہ جات، اور حفظ القرآن كے مقابلے ماہ رمضان ميں كرانا كيونكہ اس ماہ مبارك ميں لوگ اللہ تعالى كى طرف رجوع كرتے ہيں، اور قرآن مجيد كى زيادہ سے زيادہ تلاوت كرنے اور حفظ كرنے كى كوشش و جدوجھد كرتے ہيں، اور دينى احكام كى تعليم كى طرف راغب ہوتے ہيں، اس ليے اس طرح كے انعامى مقابلے منعقد كرنا اور اس ميں شركت ان شاء اللہ صحيح ہے اس ميں كوئى حرج نہيں.

چہارم:

ہمارى اس ويب سائٹ پر مختلف قسم كے انعامى مقابلہ جات ميں انعامات ركھنے كا تفصيلى بيان موجود ہے، اور صحيح يہ ہے كہ ايسا كرنا جائز ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر وہ انعامى مقابلہ خير و بھلائى اور دينى يا دنياوى فائدہ پر مشتمل ہو، بلكہ احناف نے تو علم و حساب كے مقابلہ ميں عوض كے جواز كو خاص كر بيان كيا ہے.

فتاوى الھنديۃ ميں درج ہے:

" جب اس جيسے كسى فقيہ بننے والے نے كہا: آؤ ہم مسائل ميں مقابلہ كريں، اگر تم صحيح بيان كرو اور ميں غلطى كر گيا تو آپ كو اتنا اتنا دونگا، اور اگر ميں نے صحيح بيان كيا اور تم غلطى كر گئے تو ميں آپ سے كچھ نہيں لونگا، يہ جائز ہے " انتہى.

ديكھيں: الفتاوى الھنديۃ ( 5 / 324 ).

مزيد آپ ديكھيں: رد المختار ( 6 / 404).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب