منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

جہاد ميں والدين كى اجازت

سوال

ميں جہاد فى سبيل اللہ كے متعلق ايك سوال دريافت كرنا چاہتا ہوں، يہ علم ميں رہے كہ ميں اپنے بھائيوں ميں سب سے بڑا ہوں اور ميرے والد صاحب فوت ہو چكے ہيں، اور والدہ موجود ہيں، ميرى بيوى اور بچے بھى ہيں، ميں نے والدہ سے جہاد ميں جانے كى اجازت طلب كى ليكن انہوں نے اجازت دينے سے انكار كر ديا؛ تو كيا ميں جہاد كر سكتا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جہاد فى سبيل اللہ افضل اور بہترين عمل ہے، اور اسى طرح والدين كى اطاعت و فرمانبردارى بھى، اور جب كوئى شخص شرعى جہاد پر جانا چاہے تو اسے والدين كى اجازت لينى چاہيے، اگر تو وہ اسے اجازت ديتے ہيں تو ٹھيك وگرنہ وہ جہاد ميں نہ جائے، بلكہ وہ ان كى خدمت كرے، كيونكہ ان دونوں يا ان ميں سے كسى ايك كے پاس رہنا اور ان كى خدمت كرنا بھى جہاد كى ايك قسم ہے.

اس كى دليل ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

وہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا: اللہ تعالى كے ہاں محبوب ترين عمل كونسا ہے؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وقت پر نماز كى ادائيگى كرنا.

ميں نے كہا: پھر كونسا؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" والدين كے ساتھ حسن سلوك اور نيكى كرنا

ميں نے كہا: پھر كونسا؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جہاد فى سبيل اللہ.

مجھے يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا، اگر ميں اور زيادہ دريافت كرتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى زيادہ بيان كرتے.

صحيح بخارى ( 1 / 134 ) صحيح مسلم ( 1 / 89 - 90 ).

اور عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس ايك شخص آيا اور جہاد ميں جانے كے ليے اجازت طلب كى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا تيرے والدين زندہ ہيں؟

وہ كہنے لگا: جى ہاں

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ان دونوں ميں جہاد كرو"

صحيح بخارى ( 4 / 18 )

اور ايك روايت ميں ہے:

ايك شخص آكر كہنے لگا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں آپ كے ساتھ جہاد ميں جانے كے ليے آيا ہوں، ميں آيا تو ميرے والدين رو رہے تھے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم واپس جاؤ اور جس طرح انہيں رلايا ہے، اسى طرح انہيں ہنساؤ"

مسند احمد ( 2 / 160 ) سنن ابو داود ( 3 / 38 ).

اور ابو سعيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ايك شخص نے يمن سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف ہجرت كى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے دريافت كيا:

" كيا يمن ميں تمہارا كوئى ہے؟

تو وہ كہنے لگا: ميرے والدين، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

كيا انہوں نے تجھے اجازت دى ہے؟

اس شخص نے جواب ديا، نہيں،

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ان كے پاس واپس جا كر اجازت مانگو، اگر تو وہ تمہيں اجازت دے ديتے ہيں تو تم جہاد كرلينا، اوراگر اجازت نہ ديں تو ان دونوں كى خدمت كرنا اور حسن سلوك كرنا"

مسند احمد ( 3 / 75 - 76 ) سنن ابو داود ( 3 / 39 ).

اور معاويہ بن جاھمۃ سلمى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جاھمہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اوركہنے لگا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں جہاد كرنا چاہتا ہوں، اور آپ سے مشورہ كرنے آيا ہوں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا تيرى والدہ ہے؟

اس نےجواب ديا: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس كى خدمت كے ليے وہيں رہو كيونكہ اس كے پاؤں كے قريب جنت ہے"

مسند احمد ( 3 / 429 ) سنن نسائى ( 6 / 11 ).

يہ سارے دلائل اور اس كے معنى ميں دوسرے دلائل اس شخص كے متعلق ہيں جس پر جہاد فرض عين نہيں ہوا، اورجب جہاد فرض عين ہو جائے تو جہاد ترك كرنا معصيت اور گناہ ہے، اور پھر خالق و مالك اللہ عزوجل كى معصيت و نافرمانى ميں كسى بھى مخلوق كى اطاعت و فرمانبردارى نہيں كى جا سكتى.

اور جہاد فرض عين ہونے كى صورت يہ ہے كہ جب وہ ميدان جنگ ميں صفوں كے درميان ہو، يا امام اور خليفہ و حكمران عام جہاد كا اعلان كردے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے.

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 12 / 18 )