جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

خاوند سے جنون كى حد تك محبت ہو تو اس كا كيا حل ہے

95114

تاریخ اشاعت : 01-02-2012

مشاہدات : 10212

سوال

ميں اپنے خاوند سے جنونى محبت كرتى ہوں، اور ميرا خاوند مجھ سے مكل طور پر راضى ہے، جب وہ سفر پر جاتا ہے تو ميرا انتظار يہاں تك پہنچ جاتا ہے كہ ميرا اشتياق اور بڑھ جاتا ہے، اور جب تك وہ مجھ سے بات نہ كر لے مجھے سكون نہيں آتا.
حالانكہ ميں دينى واجبات كى ادائيگى كرتى ہوں ليكن اس كے باوجود ميں اس كے نہ ہونے كى كمى محسوس كرتى ہوں، ميرے دينى بھائيوں صبر كے ليے مجھے آپ كيا نصيحت كرتے ہيں ؟
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ بہت اچھى بات ہے كہ مسلمان گھرانوں ميں خاوند اور بيوى كے مابين محبت و الفت اور مودت پھيلے، كيونكہ اس محبت و مودت اور الفت كا خاندان كے افراد پر اچھا اثر پڑيگا، اللہ سبحانہ و تعالى كى عظيم الشان آيات اور نشانيوں ميں ہے كہ اللہ نے عورت كو مرد سے پيدا فرمايا.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كى حكمت ٹھرى كہ مرد عورت سے سكون حاصل كرتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے ا سكا ذكر آدم اور حواء عليہما السلام ميں ذكر كرتے ہوئے فرمايا:

وہ اللہ تعالى ايسا ہے جس نے تم كو ايك تن واحد سے پيدا كيا، اور اسى سے اس كا جوڑا بنايا تا كہ وہ اپنے اس جوڑے سے انس حاصل كرے الاعراف ( 189 ).

اور عموم خلق كے متعلق فرمان بارى تعالى ہے:

اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و سكون پاؤ الروم ( 21 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى كے مابين محبت و مودت پيدا فرمائى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اس نے تمہارے درميان محبت اور ہمدردى قائم كر دى يقينا غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سى نشانياں ہيں الروم ( 21 ).

شيخ محمد امين شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور اس اللہ نے اس سے اس كى بيوى كو بنايا تا كہ وہ اس سے سكون پائے .

اس آيت كريمہ ميں اللہ سبحانہ و تعالى نے يہ بيان كيا ہے كہ حواء كو آدم عليہ السلام سے پيدا كيا تا كہ وہ اس سے سكون پائے، يعنى اس سے الفت حاصل كرے اور اس كے ساتھ مطئمن ہو.

اور ايك دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے بيان كيا ہے كہ آدم عليہ السلام كى ذريت كو بھى ايسے ہى بنايا.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور اس كى نشانيوں ميں سے ہے كہ تمہارى ہى جنس سے بيوياں پيدا كيں تا كہ تم ان سے آرام و سكون پاؤ، اور اس نے تمہارے درميان محبت اور ہمدردى قائم كر دى يقينا غور و فكر كرنے والوں كے ليے اس ميں بہت سى نشانياں ہيں الروم ( 21 ).

ديكھيں: اضواء البيان ( 2 / 304 - 305 ).

اور ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

خاوند اور بيوى سے زيادہ بڑھ كر كسى اور دو روحوں ميں محبت نہيں ہو سكتى.

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 3 / 525 ).

ليكن ہم يہ نہيں چاہتے كہ يہ محبت جنونى ہو ـ جيسا كہ لوگ كہتے ہيں ـ بلكہ عقلمند شخص تو امور كو ان كى جگہ ہى رہنے ديتا ہے؛ جيسا كہ زيد بن اسلم اپنے باپ سے روايت كرتے ہيں وہ بيان كرتے ہيں كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے مجھے فرمايا:

اے اسلم تيرى محبت تكلف والى نہيں ہونى چاہيے اور تيرى ناراضگى تلف كرنے والى نہ ہو!!

ميں نے عرض كيا وہ كيسے ؟

عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:

جب تم محبت كرو تو پھر اس طرح تكلف مت كرو جس طرح ايك بچہ كسى چيز كو پسند كر كے كرتا ہے، اور جب تم بغض كرو تو ايسا بغض مت كرو كہ جس سے بغض ركھ رہے ہو اسے ضائع اور ہلاك كر دو "

اسے عبد الرزاق نے مصنف عبد الرزاق حديث نمبر ( 20269 ) ميں صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

خليفہ راشد عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے يہ نصيحت اس ليے كى كہ محبت ميں تكلف ( جنونى محبت ) كے محب اور محبوب دونوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہيں.

محب پر درج ذيل اثرات مرتب ہوتے ہيں:

ا ـ ہر وقت اپنے محبوب كى سوچ رہتى ہے، جس كى بنا پر پريشانى و غم ميں مبتلا رہتا ہے، اس طرح ا سكا قيمتى وقت اسى مشغوليت ميں ضائع ہو جاتا ہے، اور اس طرح وہ نفسياتى اور بدنى مريض بن كر رہ جاتا ہے.

ب ـ جنونى محبت كے برے اثرات ميں يہ بھى شامل ہے كہ محبت كرنے والا شخص اپنے محبوب كى واجبات ميں كوتاہى اور غلطى كو بھى فراموش كر ديتا ہے، اور اس طرح وہ حرام كے ارتكاب سے بھى چشم پوشى كرنا شروع كر ديتا ہے، بلكہ جب محبوب اسے اس ميں شريك ہونے كى دعوت ديتا ہے تو جنونى ممحبت اسے اس برائى ميں شريك ہونے پر آمادہ كرتى ہے.

ج ـ اس محبت كے برے اثرات ميں يہ بھى شامل ہے كہ وہ اس كے دل پر كنٹرول كر ليتى ہے، اور اس طرح يہ محبت اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كے مقابلہ ميں آ جاتى ہے حالانكہ اس كى نجات اور كاميابى كا مدار تو اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى مبحت پر ہے؛ اور اس طرح وہ اپنے اہل و عيال كى محبت سے بھى ہاتھ دھو بيٹھتا ہے.

د ـ اس جنونى محبت كے برے اثرات ميں يہ بھى شامل ہے كہ محبت كرنے والا شخص اپنے محبوب كى جدائى اور عياب كا صدمہ برداشت نہيں كر سكتا تو اس كى موت كا صدمہ كيسے برداشت كر سكےگا !

محبوب پر اس جنونى محبت كے برے اثرات درج ذيل ہوتے ہيں:

ا ـ محب كا اصرار ہوتا ہے كہ وہ اسے بار بار ملے اور اسےاپنا ديدار كرائے اور اس كے ساتھ بيٹھے جس سے محبوب پريشان ہو جاتا ہے، اور يہ چيز اس كے كام ميں خلل كا باعث بنتى ہے، يا پھر واجب اور اہم كام ميں كوتاہى كا باعث بن جاتى ہے جو اسے مكمل عزم كے ساتھ كرنا تھے، مثلا علم نافع يا عمل صالح.

ب ـ محبوب پر اس كے برے اثرات ميں يہ بھى شامل ہے كہ: اگر وہ اپنے محب كى بات ماننے والا ہو تو يہ اپنا قيمتى وقت اس كے ساتھ ضائع كرتا رہتا ہے، اگرچہ اس كے ليے پريشانى كا باعث نہ بھى بنے تو زندگى كے قيمتى لمحات ضائع كر ديتا ہے، اور يہ چيز اسے بالآخر اس سے نفرت كا باعث بنا ديتى ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" .. چنانچہ جب آدمى كا دل كسى عورت كے ساتھ معلق ہو جاتا ہے چاہے وہ اس كے ليے مباح بھى ہو تو اس كا دل اس عورت كا قيدى بن كر رہ جاتا ہے، جسے وہ اپنے حكم كے مطابق چلاتى ہے اور اس ميں جو چاہے تصرف كرتى پھرتى ہے.

حالانكہ وہ ظاہرى طور پر تو اس كا حاكم اور سردار ہے كيونكہ وہ اس كا خاوند ہے، اور حقيقى طور پر وہ اس كا قيدى اور غلام بن چكا ہے، خاص كر جب وہ بہت زيادہ چاہنے لگے اور عشق كرنے لگے؛ اور وہ اس كے بغير نہيں رہ سكتا؛ كيونكہ اس وقت اس پر وہ قاہر و ظالم حكمران كى طرح اپنے غلام ميں حكم چلاتى ہے؛ جو اس سے خلاصى نہيں پا سكتا؛ بلكہ اس سے بھى بڑھ كر !!

اس ليے كہ دل كا قيد ہونا بدن قيد ہونے سے زيادہ برا ہے اور پھر دل كا دور ہونا بدن كے دور ہونے سے زيادہ عظيم ہے؛ كيونكہ جس كا بدن دور ہو جائے اور وہ غلام بن جائے اور اور اس كا دل مطئمن اور راحت و سكون ميں ہو تو اسے كوئى پرواہ نہيں ہوتى.

بلكہ وہ اس كے ليے چھٹكارا اور خلاصى پانا ممكن ہے؛ ليكن اگر دل جو كہ بادشاہ تھا وہ ہى غلام بن جائے اور غير اللہ كا ارادہ ركھتے ہوئے دور ہو جائے تو پھر يہى وہ ذلت و رسوائى ہے جو دل دور ہونے كى بنا پر عبوديت و قيدى والى ہے..

اس ليے آزادى تو دل كى آزادى ہے، اور غلامى و عبوديت تو دل كى غلامى ہے؛ بالكل اسى طرح جس طرح مالدارى و غنا تو دل اور نفس كى ہوتى ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

مال زيادہ ہونا ہى مالدارى و غنى نہيں، بلكہ غنا تو نفس كا غنى ہونا ہے "

اگر تو اس كا دل مباح صورت ميں دور ہوا تو پھر، ليكن جس كا دل حرام صورت ميں دور ہوا يعنى كسى عورت يا بچے پر تو يہى وہ عذاب ہے جس ميں كوئى حيلہ نہيں ہے، اور يہى لوگ سب سے زيادہ عذاب اور سب سے كم ثواب ميں ہيں.

كيونكہ عاشق كا دل جب كسى كے ساتھ معلق ہو جاتا ہے تو وہ اسے دور لے جاتا ہے، اور اس كے ليے ہر قسم كا فساد و شر جمع كر ليتا ہے جسے اللہ رب العالمين كے علاوہ كوئى اور نہيں جانتا، چاہے وہ بڑى فحاشى سے بچ بھى جائے .. " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 185 - 186 ).

اس ليے آپ كوشش كريں كہ آپ كى اپنے خاوند سے محبت اعتدال ميں رہے، جس كے نتيجہ ميں كسى واجب ميں خلل پيدا نہ ہو، اور نہ ہى اس سے اولى اور عظيم چيز يعنى اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ميں كوتاہى واقع ہو.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو اس كام كى توفيق نصيب فرمائے جسے وہ پسند كرتا اور جس سے وہ راضى ہوتا ہے، اور آپ دونوں ميں محبت و الفت اور مودت و رحمدلى قائم ركھے، اور آپ كو نيك و صالح اولاد عطا فرمائے.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب